بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد بچے کی پرورش کا حق


سوال

 زید نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے اور اس کی عدت بھی پوری ہوچکی ہے ،اس کا ایک بیٹا ہے جو تین سال کا ہے، علماء سے مسئلہ سنا ہے کہ  بچہ 7 سال تک ماں کے پاس رہے گا، پھر باپ لے سکتا ہے، لیکن زید کو مسئلہ معلوم نہیں تھا ،اس وجہ سے فریقین کے درمیان یہ فیصلہ ہوا تھا کہ بچہ 15 دن ماں کے پاس رہے گا اور 15 دن باپ کے پاس رہے گا،لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ  بچہ ماں کے پاس جانے کے لیے  تیار نہیں ہے، وہ کہتا ہے  میں باپ کے پاس رہوں گا، اگر اس کا باپ معاہدے کے مطابق 15 دن بعد ماں کے پاس چھوڑنے جاتا ہے، تو بچہ بہت روتا ہے، لیکن چوں کہ معاہدہ ہوا ہے، اس وجہ سے باپ نہ چاہتے ہوئے بھی بچے کو سلا کر اس کی ماں کے گھر چھوڑ کر آتا ہے، پھر جب کچھ دن بعد باپ بچے کو لینے جاتا ہے تو بچہ باپ سے لپٹ جاتا ہے اور کہتا ہے  مجھے ماں کے پاس نہیں جانا، لہٰذا باپ بچے کی یہ بے بسی دیکھ نہیں سکتا ،لہٰذا اس نے یہ سوچا ہے کہ اب بچہ میرے پاس ہی رہے گا اور ماں کہتی ہے  بچہ میرے پاس رہے گا، لیکن بچہ ماں کے پاس جانے کے لیے راضی نہیں ہے،  صورتِ مذکورہ میں شرعاً کیا کرنا چاہیے؟

جواب

 واضح رہے کہ  طلاق کے بعد بچہ کی پر ورش کا حق سات سال تک ماں کو ہوتا ہے ،بشرطیکہ وہ بچے کے کسی غیر محرم رشتہ دار سے شادی  نہ کرے ،  لہذا صورتِ مسئولہ  میں بچے کی پرورش کا حق ماں کو ہے ،لیکن اگر ماں اپنا حق  چھوڑتی ہے اور یہ معاہدہ کرلیتی ہے کہ پندرہ دن بچہ میرے پاس رہے گا اور پندرہ دن اپنےباپ کےپاس رہے گا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ،وہ اپناحق معاف کرسکتی ہے ۔باقی اگر بچہ ماں کے پاس نہیں رہنا چاہتا تو اس کا اعتبار نہیں ہے ،ماں  پر اگر بچے کی  تربیت کے سلسلے میں اس پر اطمینان کیا جاسکتا ہو؛کہ وہ اس کے پاس ہلاک نہ ہوجائے تو بچہ ماں کے پاس ہی رہے گا، یہ اس کا شرعی حق ہے، اس عرصے میں والد اس کی اجازت کے بغیر بچے کو  اپنے پاس مستقل نہیں روک سکتا،  مزید یہ  کہ  بچہ سات سال تک اپنے روزمرہ کی ضروریات کھانا،  پینا اور استنجا وغیرہ میں مدد اور تعاون کے محتاج ہوتا ہے، یہ امور والدہ یا دوسری کوئی عورت بخوبی بجا لاسکتی ہے، مرد کے لیے یہ امور سر انجام دینا آسان نہیں ہوتا ۔

 الفتاوى الهندية (11 / 315ط:دار الفكر):

"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدةً أو فاجرةً غير مأمونة، كذا في الكافي. سواء لحقت المرتدة بدار الحرب أم لا، فإن تابت فهي أحق به، كذا في البحر الرائق. وكذا لو كانت سارقةً أو مغنيةً أو نائحةً فلا حق لها، هكذا في النهر الفائق".

(الدر المختار، كتاب الطلاق، باب الحضانة ۳/ ۵٦٦ إلى ۵٦۹ ط: سعيد)

"(والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا و أقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى وبنت إحدى عشرة مشتهاة اتفاقا زيلعي (ولا خيار للولد عندنا مطلقًا) ذكرًا كان، أو أنثى، خلافًا للشافعي، قلت: وهذا قبل البلوغ، أما بعده فيخير بين أبويه، وإن أراد الانفراد فله ذلك، مؤيد زاده معزيًا للمنية. وأفاده بقوله: (بلغت الجارية مبلغ النساء، إن بكرًا ضمها الأب إلى نفسه) إلا إذا دخلت في السن واجتمع لها رأي فتسكن حيث أحبت حيث لا خوف عليها (وإن ثيبًا لا) يضمها (إلا إذا لم تكن مأمونةً على نفسها) فللأب والجد ولاية الضم لا لغيرهما كما في الابتداء، بحر عن الظهيرية".

فقط والله  اعلم


فتوی نمبر : 144208201252

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں