بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کی صورت میں بچوں کی پرورش کا حق کس کو ہوتا ہے؟ اورکیا والدین ایک دوسرے کو بچوں کے ساتھ ملاقات سے روک سکتے ہیں؟


سوال

شادی کے کچھ عرصہ بعد ہمارے تعلقات خراب ہوگئے، میرے شوہر مجھ پر زیادتی اور غلیظ قسم کے الزامات لگاتے تھے، شک کرتے تھے اور کافی بار ہاتھ بھی اٹھایا ہے، نہ بچوں اور نہ میری ذمہ داری کبھی  اٹھائی ہے،  بچوں پر دھیان نہیں دیتے، بچوں سے چڑکر جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتے تھے،بچوں کی دلوں میں نفرتیں اور غلط غلط باتیں ڈالتے تھے، وہ  نان ونفقہ بھی نہیں دیتے،  حتیٰ کہ  بچوں کے دادا دادی بھی نہیں دیکھتے تھے، سارے اخراجات میرے والدین اور میں خود کام کرکے پورے کرتی تھی،  اب تک میرا اور میرے بچوں کا خیال میں نے خود اور میرے والدین نے رکھا ہے، اب  ہمارے درمیان طلاق کی وجہ سے جدائی ہوئی ہے، میرا ایک بیٹاپانچ سال کا اور ایک بیٹی تین سال کی ہے، اس لیے میں چاہتی ہوں کہ بچوں کی پرورش میں خود کروں،جیسے اب تک کرتی آئی ہوں، کیوں کہ شوہر کے گھر کا ماحول صحیح نہیں ہے اور اس ماحول کا اثر بچوں پر پڑ سکتا ہے، جس کی وجہ سے بچوں کا مستقبل خراب ہونے کا اندیشہ ہے، اس بارے میں شرعی راہ نمائی کےلیے   چند سوالات کرنا چاہتی ہوں:

1: مذکورہ بالا صورتِ حال کو مدِنظر رکھتے ہوئے کیاشریعت بچوں کو ایسے باپ  کے پرورش میں دینے کی اجازت دیتی ہے؟ اور شریعت بچوں کو ایسے باپ سے ملاقات کی اجازت دیتی ہے؟ اگر دیتی ہے تو کس طرح ملاقات کی اجازت دیتی ہے؟ میں چاہتی ہوں کہ بچوں کی ملاقات میرے والدین کے گھر کے قریب ہو، کیوں کہ ان کے گھر کا ماحول ایسا نہیں کہ  بچوں کو ان کے گھر پر بھیجاجاسکے۔

2: اگر بچے باپ سے ملنے سے انکار کرے تو ایسی صورت میں باپ ملاقات کےلیے ان پر زبردستی کرسکتاہے؟

3: علیحدگی کے بعد بچوں کے اخراجات کس کے ذمہ ہوتے ہیں؟ اگر باپ کے ذمہ ہے اور وہ اخراجات نہ دے تو کیا حکم ہے؟

4: سناہے کہ اگر ماں دوسری شادی کرے توبچے باپ کے پاس جائیں گے، تو اگر باپ دوسری شادی کرے تو بچے کس کے پاس جائیں گے؟

جواب

1: صورتِ مسئولہ میں لڑکے  کی عمر سات سال اور لڑکی کی عمر نو سال  ہونے تک پرورش کا حق سائلہ (ماں) کو حاصل  ہے۔

تاہم اگر سائلہ کسی ایسے شخص سے نکاح کرے، جو بچوں کےلیے نامحرم ہو تو سائلہ کا حقِ پرورش ساقط ہوجائے گا۔

  مذکورہ عمر کے بعد بلوغت تک دونوں کی تربیت  کا حق باپ کو حاصل ہوگا، تاہم اگر بچوں کا باپ ایسا فاسق ہے کہ اس کے فسق کا ضرر بچوں پر پڑنے اور ان کی تربیت خراب ہونے کا قوی اندیشہ ہو تو اس کا حقِِ تربیت  ساقط ہو جائےگا اور ایسی صورت میں پھر بچے کا دادا، وہ نہ ہو تو بچے کے چچا کو تربیت کا حق حاصل ہوگا،  کیوں کہ حقِ تربیت کےثبوت کےلیے دین دار ہونا شرط ہے اور اگر والد ایسا فاسق نہیں ہے کہ جس کے فسق کا اثر بچوں پر پڑ سکتا ہے، تو پھر اسے تربیت  کا حق حاصل ہوگا، نیز بلوغت کے بعد دونوں کو اختیار ہوگا  کہ جس کے پاس رہنا چاہیں رہ سکتے ہیں،  اور   بچے والدین میں سے جس کے پاس  بھی ہوں وہ دوسرے کو بچوں کے ساتھ ملاقات  کرنے سے نہیں روک سکتا، باقی دونوں خاندان باہمی رضامندی سے ملاقات کےلیے جگہ اور وقت متعین کرنا چاہیے، جس میں  بچےوالدیں سے ملاقات کرسکیں۔

الفتاوى الہندیۃ ميں ہے:

"والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني، وقدر بسبع سنين، وقال القدوري: حتى يأكل وحده، ويشرب وحده، ويستنجي وحده. وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين، والفتوى على الأول. والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض. وفي نوادر هشام عن محمد - رحمه الله تعالى -: إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق، وهذا صحيح. هكذا في التبيين".

(كتاب الطلاق، الباب السادس عشر في الحضانة، ج:1، ص:541، ط:رشيدية)

الموسوعۃ الفقهیۃ الكويتیۃ میں ہے:

"الأمانة في الدين، فلا حضانة لفاسق، لأن الفاسق لا يؤتمن، والمراد: الفسق الذي يضيع المحضون به، كالاشتهار بالشرب، والسرقة، والزنى واللهو المحرم، أما مستور الحال فتثبت له الحضانة. قال ابن عابدين: الحاصل أن الحاضنة إن كانت فاسقة فسقا يلزم منه ضياع الولد عندها سقط حقها، وإلا فهي أحق به إلى أن يعقل الولد فجور أمه فينزع منها".

(الحضانة، ما يشترط فيمن يستحق الحضانة ، ج:17، ص:306، ط:طبع الوزارة)

2:جس عرصہ میں بچوں کی پرورش کاحق سائلہ کو حاصل ہے ، تو سائلہ کو چاہیے کہ بلاوجہ بچوں کے دل میں ان کے والد کی بے توقیری اور نفرت پیدا نہ کرے، بلکہ والد کی عزت و احترام اور محبت کا درس دے، نیز اس عرصہ میں وہ بچوں کے والد کو ان کے ساتھ ملاقات سے منع نہیں کرسکتی۔

فتاوى شامي میں ہے:

"وفي الحاوي: له إخراجه إلى مكان يمكنها أن تبصر ولدها كل يوم كما في جانبها فليحفظ. قلت: وفي السراجية: إذا سقطت حضانة الأم وأخذه الأب لا يجبر على أن يرسله لها، بل هي إذا أرادت أن تراه لا تمنع من ذلك".

وفي الرد:

"ويؤيده ما في التتارخانية: الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعهده. اهـ".

(كتاب الطلاق، باب الحضانة، ج:3، ص:371، ط:سعيد)

3: بچوں کے متوسط اخراجات (کھانا پینا، کپڑے ،رہائش، تعلیمی اخراجات اور علاج معالجہ وغیرہ) والد کے ذمہ  لازم ہے، اگر وہ بچوں کے اخراجات نہیں دیتا تو عدالتی کاروائی کے ذریعے اخراجات حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

المحيط البرہانی میں ہے:

"وإن أبى الأب أن يكتسب وينفق عليهم يجبر على ذلك ويحبس، بخلاف سائر الديون، فإن الوالدين وإن عَلَو لا يحبسون بديون الأولاد وفي هذا الدين، قال يحبس.والفرق: وهو أن في الامتناع عن الإنفاق ههنا إتلاف النفس، والأب لا يستوجب العقوبة عن قصده إتلاف الولد كما لو عدا على ابنه بالسيف كان للابن أن يقتله، بخلاف سائر الديون .... لكنه امتنع عن النفقة على الصغير يفرض القاضي على الأب نفقة الأولاد فامتنع الأب عن (النفقة) على الأولاد فالقاضي يأمرها أن تستدين عليه وتنفق على الصغير لترجع بذلك على الأب".

(كتاب النفقات، الفصل الثالث في نفقة ذوي الأرحام، ج:3، ص:570، ط:دارالكتب)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"‌نفقة ‌الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة".

(کتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الاولاد، ج:1، ص:560، ط:رشيدية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر، فإن نفقة المملوك على مالكه والغني في ماله".

(قوله بأنواعها) من الطعام والكسوة والسكنى، ولم أر من ذكر هنا أجرة الطبيب وثمن الأدوية، وإنما ذكروا عدم الوجوب للزوجة، نعم صرحوا بأن الأب إذا كان مريضا أو به زمانة يحتاج إلى الخدمة فعلى ابنه خادمه وكذلك الابن".

(کتا ب الطلاق، باب النفقة، مطلب الصغير والمكتسب نفقة في كسبه لا على أبيه، ج:3، 612، ط:سعيد)

4:  والدہ كی حقِ پرورش کی مدت مكمل ہوجانے کے  بعد بچے باپ كی تربیت ميں رہیں گے، اگرچہ والد دوسری جگہ شادی کرلے، محض شادی کرنے کی وجہ سے  والد کی تربیت کا حق ساقط نہیں ہوتا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ولا خيار للولد عندنا مطلقا) ذكرا كان، أو أنثى خلافا للشافعي. قلت: وهذا قبل البلوغ، أما بعده فيخير بين أبويه، وإن أراد الانفراد فله ذلك مؤيد زاده معزيا للمنية".

وفي الرد:

"(قوله: ولا خيار للولد عندنا) أي إذا بلغ السن الذي ينزع من الأم يأخذه الأب، ولا خيار للصغير لأنه لقصور عقله يختار من عنده اللعب، وقد صح أن الصحابة لم يخيروا. وأما حديث «أنه صلى الله عليه وسلم خير فلكونه قال: اللهم اهده» فوفق لا اختيارا لا نظر بدعائه عليه الصلاة والسلام، وتمامه في الفتح".

(كتاب الطلاق، باب الحضانة، ج:3، ص:568، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100112

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں