بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے مطالبہ طلاق کے جواب میں شوہر کا میرا بچہ مجھے دے دو تو تجھے طلاق، کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

 بیوی نے شوہر سے غصے میں کہا کہ مجھے چھوڑ دو ،طلاق دیدو ،شوہر نے کہا :میرا بچہ مجھے دیدو توتجھے طلاق ، بیوی نے اس وقت بچہ شوہر کو نہیں دیا اور بچہ اپنے ساتھ لےکر چلی گئ ۔ آپ حضرات راہ نمائی فرمائے کہ اس تعلیق کا کیا حکم ہے؟ نیز اگر میاں بیوی صلح کرنے کے بعد دوبارہ اپنا گھر بسانا چاہیں توکیا اس صورت میں ایک ساتھ رہنے سے طلاق واقع ہوگی کہ نہیں ؟اور اس طرح بچہ دینے سے کیا حقیقتاً بچہ دینا مرادہوگا ؟ یا کوئی اورصورت ہوگی؟راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں بیوی کے مطالبہ طلاق پر  شوہر نےجوالفاظ بولےہیں کہ"میرا بچہ مجھے دے دو تو تجھے طلاق"میں "بچہ دینے" مراد یہ ہے کہ بیوی شوہر کو اس کا بچہ حوالہ کردےتو طلاق واقع ہوگی، لہذا اگر واقعۃ بیوی نےبچہ شوہر کے حوالہ نہیں کیااور اس کو اپنے ساتھ لے کر چلی گئی تھی تو کسی قسم کی کوئی طلاق واقع نہیں  ہوئی ہے،میاں بیوی کا نکاح برقرار ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

(کتاب الطلاق، الباب الرابع فی الطلاق بالشرط، ج:1، ص:420، ط: دارالفکر۔ بيروت)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله ففيها إن وجد ‌الشرط انتهت اليمين) أي في ألفاظ ‌الشرط إن وجد المعلق عليه انحلت اليمين، وحنث وانتهت لأنها غير مقتضية للعموم والتكرار لغة فبوجود الفعل مرة يتم ‌الشرط، ولا يتم بقاء اليمين بدونه، وإذا تم وقع الحنث فلا يتصور الحنث مرة أخرى إلا بيمين أخرى أو بعموم تلك اليمين، ولا عموم."

(باب التعليق في الطلاق، ج: 4، ص: 15، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412101171

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں