بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کی تعداد میں میاں بیوی کا اختلاف اور تحکیم کا مشورہ


سوال

تقریبا 10 سال پہلے میں اور میری بیوی کے درمیان شدید لڑائی ہوئی، تو انتہائی غصہ کی حالت میں، "میں تمہیں طلاق دیتاہوں" کا نعرہ لگانےلگا، اسی وقت میری سالی نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور طلاق نہ دینے کے التجاء کی، جس کی وجہ سے میں رکھ گیا، پھر عدت ختم ہونے سے پہلے میں نے رجوع کیا، تاہم کچھ دن پہلے اپنی بیوی کو ایک اور طلاق ان الفاظ" میں تمہیں طلاق دیتاہوں " سےدی، اب میں کہہ رہاں کہ بیوی پر دو طلاق واقع ہوگئی ہیں، ایک دس سال پہلے اور  ایک کچھ دن پہلے، لیکن میری بیوی اور سالی کہہ رہی ہیں کہ: تم نے  اُس وقت یعنی دس سال پہلے دو طلاقیں  دی تھی اور ایک طلاق ابھی دی ہے، جس کی وجہ  بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اور بیوی تم پر حرام ہوگئی ہے۔

تو ایسی صورتِ حال میں میری بیوی پر دوطلاق واقع ہوگئی ہیں یا تین طلاقیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ سائل کی بیوی سمیت سالی اور سائل کے درمیاں پہلی بار میں دو یا ایک طلاق دینے کے بارے میں اختلاف ہے، سائل کی بیوی اور سالی دو طلاقوں کا دعوی کررہی ہیں اور سائل ایک طلاق کا اقرار اور دوسری سے انکاری ہے ،لہٰذا  فریقین (میاں بیوی) کو چاہیے کہ اس مسئلے  کو حل کرنے کے لیے کسی مستند  مفتی یا عالمِ دین کو حکم(فیصل) بنائیں اور وہ  شریعت کے مطابق جو فیصلہ دیں دونوں فریق اس پر عمل کریں، جب تک فیصلہ نہ ہو، اس وقت تک علیحدہ رہیں۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"و يصح ‌التحكيم فيما يملكان فعل ذلك بأنفسهما و هو حقوق العباد و لا يصح فيما لا يملكان فعل ذلك بأنفسهما، و هو حقوق الله تعالى حتى يجوز ‌التحكيم في الأموال والطلاق والعتاق والنكاح والقصاص وتضمين السرقة ولا يجوز في حد الزنا والسرقة والقذف."

  [كتاب ادب القاضی،الباب الرابع و العشرون فی التحکیم(3/ 397) ط:دار الکتب العلمية]

وفيه أيضا:

"و حكم هذا ‌الحكم يفارق حكم القاضي المولى من حيث إن حكم هذا ‌الحكم إنما ينفذ في حق الخصمين و من رضي بحكمه، و لا يتعدى إلى من لم يرض بحكمه بخلاف القاضي المولى، كذا في الملتقط."

 [كتاب ادب القاضی،الباب الرابع و العشرون فی التحکیم(3/ 397)ط: دار الكتب العلمية]

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100644

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں