بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو القعدة 1446ھ 07 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

طلاق کی تحکیم میں شوہر کے حق میں فیصلہ ہونے کے بعد عورت کیا کرے؟


سوال

طلاق کے سلسلہ میں اگر زوجین کے مابین اختلاف ہو جائے یعنی شوہر طلاق کا منکر ہو اور عورت اپنے کانوں سے الفاظ طلاق سننے کا دعوی کرے اور عورت کے پاس واقعہ طلاق پر کوئی گواہ نہ ہو، پھر یہ معاملہ قاضی شریعت کے یہاں پیش ہو، تو ایسی صورت میں قاضی شریعت فریق ثانی کے حلف کی بنا پر دعوی طلاق کو خارج کر کے زوجین کو ایک ساتھ رہنے کا حکم دے گا؟ یا عورت کو المرأة کالقاضی کے تحت علیحدہ رہنے کا حکم دےگا ؟ اور اس صورت میں عورت کو دوسرے نکاح کی اجازت ہوگی یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون نے اگر واقعۃً اپنے شوہر سے تین مرتبہ طلاق کے الفاظ سنے ہوں،مگر بعد  میں شوہر منکر ہو جائے، اور قاضی کے سامنے  تین طلاق نہ دینے، اور حرمت  مغلظہ  نہ ہونے پر حلف اٹھالے، جس پر قاضی نکاح  قائم ہونے کا فیصلہ کردے، اس کے باوجود بیوی کے لیے شوہر کو اپنے اوپر قدرت دینے کی اجازت نہیں ہو گی،اس صورت میں بیوی پر لازم ہو گا  کہ کسی طرح شوہر سے طلاق یا خلع حاصل کر لے،یا کسی طرح شوہر سے طلاق بائن کے الفاظ کہلوا لیے جائیں،بصورت دیگر مذکورہ خاتون کے لیے کسی اور  سےنکاح کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہو گی۔

مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمہ اللہ اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

’...اگرشوہراس (مطلقہ)کواپنے پاس رکھے گاتوہمیشہ نزاع اور شک وشبہ رہے گا، اور شوہرگناہ گارہوگا،اگرخدانخواستہ شوہرنہ طلاق کا اقرار کرے ،نہ اب طلاق دے ،اور طلاق کے شرعی گواہ بھی موجود نہ ہوں، توایسی صورت میں عورت شوہرسے خلع کرے،کچھ دے دلاکررہائی حاصل کرے،جماعت اور برادری کے سمجھ دار دین دارحضرات شوہر کوسمجھاکر طلاق کا اقرار یا طلاق دینے یاخلع کرلینے پرآمادہ کریں، طلاق کا اقرار یا طلاق حاصل کیے یاخلع کے بغیر عورت کسی اور جگہ نکاح نہیں کرسکتی ... ایک صورت یہ ہے کہ شوہرسے جبراً واکراہاً طلاق بائن کہلوائی جائے یہ بالکل آخری درجہ ہے‘‘۔

(فتاویٰ رحیمیہ8/283،ط:دارالاشاعت)

 مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحرمیں ہے:    

"وفي التتارخانية وغيرها سمعت المرأة من زوجها أنه طلقها ولا تقدر على منعه من نفسها إلا بقتله لها قتله بالدواء ولا تقتل نفسها وقيل لا تقتله وبه يفتى وترفع الأمر إلى القاضي فإن لم تكن لها بينة تحلفه فإن حلف فالإثم عليه لكن إن قتلته فلا شيء عليها."

(كتاب الطلاق،باب الرجعة،1/ 441،ط: دار إحياء التراث العربي)

فتاوی شامی میں ہے: 

"والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب، كما أنه ليس له قتلها إذا حرمت عليه وكلما هرب ردته بالسحر. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. اهـ. قلت: أي إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلا ينافي ما قبله."

(كتاب الطلاق،باب الصريح،3/ 251،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606102720

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں