بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کی تعلیق کی ایک صورت کا حکم


سوال

ایک عورت ڈلیوری کے بعد تقریباً ڈیڑھ مہینہ اپنے ماں باپ کے گھر پر رہنے کے بعد شوہر کے گھر آتی ہے تو شوہر اس کو کہتا ہے کہ:

" ڈلیوری کے بعد سے لیکر آج کے دن تک بیچ میں جتنے دن تم اپنے ماں باپ کے گھر رہیں اس عرصہ میں اگر تم نے بے وفائی کی ہے مجھ  سے یا تم نے بےپردگی کی ہے جان بوجھ کر تو تم پر تین طلاق ہے"۔

 اب مسئلہ مذکورہ میں بیوی بتاتی ہے کہ اس عرصہ میں ایک دفعہ میرے ماں باپ کے گھر میں مہمان آئے تھے جس میں عورتیں بھی تھی اور ایک دو غیر محرم مرد بھی۔ تو گھر میں برآمدہ کے ساتھ متصل اوپن کچن بھی ہے یعنی کچن اور برآمدہ کے بیچ کوئی دیوار وغیرہ نہیں ہے صرف کچن کا سلیب ہے تو میں کچن میں کام کر رہی تھی اور سلیب کے ساتھ ہی پڑی چارپائی پر ایک عورت بیٹھی تھی جس سے بات بھی کر رہی تھی تو مجھے کسی مرد کی آواز آئی تو میں نے آواز پر مُڑ کر دیکھا تو اس عورت کا شوہر آیا تھا برآمدہ میں تو میں پھر سے بے پرواہی سے اپنے کام میں لگ گئی کچن میں اور یہ سوچ تھی کہ بے پردگی ہوتی ہے تو ہوتی رہے،  اب مجھے نہیں معلوم کہ اس نے مجھے دیکھا یا نہیں اور کب وہ گیا مجھے اس کا علم نہیں۔ اور پھر میں کام کر کے جب فارغ ہوئی تو رات کے ٹائم میں برآمدہ سے متصل کمرہ میں چلی گئی اپنی بچی کے پاس اور اس کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئی اور بیڈ کے بالکل سامنے روم کا دروازہ تھا جو کھلا تھا، اس پر پردہ پڑا ہوا تھا تو اس دوران پردہ تھوڑا ہٹا تو میں نے دیکھا کہ وہی مرد برآمدہ میں سامنے بیٹھا تھا تب بھی میں وہی بیٹھی رہی، بے پردگی ہوتی ہے تو ہوتی رہے۔

پھر جب مہمان رخصت ہونے لگے اور کمرے میں امی سے مل کر عورتیں باہر جانے لگیں تو وہ مرد بھی جو میرے کزن ہیں امی سے ملنے کمرہ میں آئے جس میں میں بیٹھی تھی تو وہ امی سے مل کر چلے گئے اور میں وہاں سے اٹھی نہیں بلکہ وہیں پر بیٹھی رہی۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ یہ ساری صورتیں جان بوجھ کر بے پردگی کرنے کے تحت داخل ہوتی ہیں اور طلاق ہوگئی ؟ یا پھر یہ صورتیں شرعاً جان بوجھ کر بےپردگی کرنے کے تحت داخل نہیں ہیں اور طلاق واقع نہیں ہوئی؟

بے وفائی سے مراد موجبِ حد زنا یا لواطت ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں شوہر نے تعلیق کے جو الفاظ استعمال کیے ہیں ان الفاظ سے طلاق واقع ہونے کے لیے ضروری ہے کہ بیوی قصداً بے پردہ ہو کر کسی غیر محرم کے سامنے آئے، یا زنا اور لواطت کا ارتکاب کرے، اگر اس نے زنا اور لواطت کا ارتکاب نہیں کیا اور نہ ہی بے پردہ ہو کر کسی غیر محرم کے سامنے آئی ہے تو اس سے بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، نکاح باقی ہے، اگرچہ غیر محرم مرد گھر میں سامنے آئے ہوں۔

تفسیر طبری میں ہے:

"(‌وَلا ‌تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الأولَى) قال: التبختر. وقيل إن التبرج هو إظهار الزينة، وإبراز المرأة محاسنها للرجال."

(سورہ احزاب، جلد:20، صفحه: 260، طبع: دار التربية والتراث)

تفسیر عبد الرزاق میں ہے:

"عن مجاهد ، في قوله تعالى: {‌ولا ‌تبرجن تبرج الجاهلية الأولى} [الأحزاب: 33] قال: كانت المرأة تتمشى بين الرجال فذلك تبرج الجاهلية."

(سورہ احزاب، جلد:3، صفحہ: 37، طبع: دار الکتب العلمیۃ)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"إذا أضاف الطلاق إلى النكاح وقع عقيب النكاح."

(کتاب الطلاق، الباب الرابع، جلد: 1، صفحہ: 420، طبع: دار الفکر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144502100298

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں