بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کی صورت میں لڑکے کی طرف سے دیے گئے گفٹس کا حکم


سوال

میرے   بھا ئی  کی بیو ی بلا وجہ  اپنے میکے جا کے  8  مہینے بیٹھ گئی  اور شوہر کے  لا کھ بلا نے کے بعدبھی نہیں آئی ۔ اور  لڑ کے  اور  سسرال  والوں کو  بڑا بنایا،  لڑکے کے والد لڑکی کو لینے گئے تو لڑکی کے باپ نے بھیجنے سےصاف انکار کردیا۔ لڑکے کے مسلسل 8 ماہ بلانےاور انتظار کے بعد لڑکی نے  لڑکے سے  کہا کہ  میرے  باپ نے تو میرے لیے کوئی  دوسرا دیکھ رکھا  ہے ، جس پر لڑکے نے غصے میں آکر ایک طلاق دے دی ۔لڑکی والوں  کی طرف سے فتوے میں بائن قرار پائی؛ لہذا  اب کیا شوہر کی طرف سے دیے  گئے گفت پر لڑ کی کا کوئی  حق بنتا  ہے ؟ مثلًا : زیور وغیرہ۔ لڑکی کے سامان میں آنے والا فریج سسرال میں لڑ کی کی مو جود گی میں کچھ  ماہ استعمال ہوا جس کو نیا  مانگا جارہا ہے،  کیا نیا فرج کا مطا لبہ  درست ہے؟ 

یاد رہے  کہ لڑکی شوہر کا گھر خود اپنی مرضی سے چھوڑ  کر گئی  تھی اور 8 ماہ اپنی میکے  بیٹھی رہی اور شوہر بلاتا رہا۔اس سے صاف ظاہر  ہے کہ  وہ گھر بسانا نہیں چاہتی تھی!

جواب

لڑکے والوں کی طرف  سے جو عام  استعمال کی چیزیں مثلاً کپڑے ، جوتے ، گھڑی وغیرہ لڑکی کو  دیے جاتے ہیں ، اسی طرح منہ دکھائی کے موقع پر جو چیز دی جائے، یہ سب  بھی لڑکی  ہی کی ملکیت ہے۔

اور  لڑکی کو  نکاح کے موقع پر مہر کے علاوہ جو  زیورات شوہر یا  سسرال والوں کی طرف سے ملتے ہیں، ان میں یہ تفصیل ہے کہ اگر  زیورات دیتے وقت  سسرال والوں نے اس بات  کی صراحت کی تھی کہ یہ  بطورِ عاریت یعنی صرف  استعمال کرنے کے لیے ہیں  تو پھر یہ  زیورات لڑکے والوں کی ملکیت ہوں گے، اور اگرسسرال والوں نےہبہ ، گفٹ اور  مالک بناکر دینے کی صراحت کردی تھی تو پھر ان زیورات  کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر  زیورات دیتے وقت کسی قسم کی صراحت نہیں  کی تھی   تو پھر لڑکے کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا، اگر ان کا عرف و رواج بطورِ ملک دینے کا ہے  یا ان کا کوئی رواج نہیں ہے تو ان دونوں صورتوں میں زیورات کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر  بطورِ عاریت دینے کا رواج ہے تو پھر سسرال والے ہی مالک ہوں گے۔

باقی لڑکی والوں کی طرف سے لڑکی کو جو فریج دیا گیا تھا لڑکی اُسی فریج کی مستحق ہے، اب اُس کے  مقابلہ میں دوسرے  نئے  فریج کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً".

(3/ 153،  کتاب النکاح، باب المہر، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

"وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها، منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية".

(1 / 327، الفصل السادس عشر فی جهاز البنت، ط: رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201186

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں