بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 جُمادى الأولى 1446ھ 03 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کی صورت میں مہر کا مطالبہ کرنا


سوال

ایک شخص کی شادی کو چار سال ہو چکے ہیں ، اور اس نکاح سے اس کا ایک ڈیڑھ  سال کا بیٹا  بھی ہے، جو ماں کا دودھ نہیں پیتا، ڈبے کا دودھ  پیتا ہے، میاں بیوی کی ازدواجی زندگی  پریشانیوں کا شکار ہونے کی وجہ  سے بات طلاق تک پہنچ چکی ہے ، بیوی کا حق مہر چار تولہ سونا مقرر کیا گیا تھا ،  اب لڑکی والے لڑکے کو کہہ رہے ہیں کہ: اگر طلاق دو گے تو حق مہر اور ہماری ڈیمانڈ پوری کرنی ہوگی، اور بچہ بھی ماں کو دینا ہوگا۔

شریعت کی رو سے اس مسئلے کا تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں ۔

جواب

مہر بیوی کا شرعی حق ہے، جس کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوتی ہے، خواہ نکاح برقرار رہے، یا شوہر طلاق دے دے، ، البتہ  اگر  بیوی خود  سے مہر معاف کردے،  تو اس صورت میں مہر کی ادائیگی شوہر پر لازم نہیں ہوتی، لہذا صورتِ  مسئولہ میں  فریقین کو صلح صفائی کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے،  بصورتِ  دیگر طلاق کی صورت میں بیوی کی جانب سے مہرکا مطالبہ درست ہوگا، البتہ خلافِ  شرع کسی چیز کے مطالبے کا حق نہ ہوگا، رہی بات  بچے  کی، تو رشتہ برقرار  رہے یا ختم ہوجائے، بہر صورت اس کے اخراجات  کی ذمہ داری شرعًا والد  کی  ہوگی، اور جب تک بچے  کی عمر سات سال مکمل نہ ہوجائے، اس کی پرورش کی حق دار اس کی ماں ہوگی، سات سال عمر ہوجانے کے بعد بچے  کی تربیت کاحق والد کو ہوگا، سات سال عمر ہوجانے کے بعد والد کی مرضی کے بغیر والدہ بچے  کو اپنے پاس رکھنے کی حق دار نہ ہوگی۔

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

"(ولا بأس به عند الحاجة) للشقاق بعدم الوفاق.

(قوله: للشقاق) أي لوجود الشقاق وهو الاختلاف والتخاصم. وفي القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما، فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع. اهـ. ط، وهذا هو الحكم المذكور في الآية."

(باب الخلع، ٣ / ٤٤١، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراءمن صاحب الحق، كذا في البدائع."

(كتاب النكاح، الباب السابع في المهر، الفصل الثاني فيما يتأكد به المهر والمتعة، ١ / ٣٠٣، ط: دارالفكر)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"(قوله: والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع)... (قوله: وبها حتى تحيض) أي: الأم والجدة أحق بالصغيرة حتى تحيض؛ لأن بعد الاستغناء تحتاج إلى معرفة آداب النساء والمرأة على ذلك أقدر وبعد البلوغ تحتاج إلى التحصين والحفظ والأب فيه أقوى وأهدى وبه علم أنه لو قال حتى تبلغ لكان أولى وعن محمد أنها تدفع إلى الأب إذا بلغت حد الشهوة لتحقق الحاجة إلى الصيانة قال في النقاية وهو المعتبر لفساد الزمان،... وقدره أبو الليث بتسع سنين وعليه الفتوى اهـ."

(باب الحضانة، ٤ / ١٨٤، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" نفقة الأولاد الصغار علي الأب، لا يشاركه أحدٌ، كذا في الجوهرة النيرة... و نفقة الإناث واجبة مطلقًا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال، كذا في الخلاصة.

و لايجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزًا عن الكسب لزمانة، أو مرض و من يقدر على العمل لكن لايحسن العمل فهو بمنزلة العاجز، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ١ / ٥٦٠ - ٥٦٢، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144601101056

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں