بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کی صورت میں بچی کی پرورش کس کا حق ہے؟


سوال

میرا بھائی شادی کے بعد ذہنی طور پر بیمار ہو گیا  ، جس وجہ سے اس کی بیوی اس کو  چھوڑ کراپنے میکے چلی گئی ، اب میرا بھائی   80 سے 90فیصد  ٹھیک ہے ، لیکن اب اس کی بیوی کسی بھی صورت اس کے ساتھ واپس نہیں جانا چاہتی اور طلاق کا مطالبہ کر رہی ہے ، جب کہ میرا بھائی طلاق نہیں دینا چاہتا ۔ ان کی ایک  3 سال کی بیٹی بھی ہے ۔ طلاق عورت لینا چاہتی ہے ، شوہر نے ہر قسم کی مُمکن کوشش کر لی ہے، لیکن عورت طلاق ہی چاہتی ہے، طلاق کی صورت میں بچی کا حق دار اسلامی اور قانونی طور پر کون ہوگا ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر میاں بیوی میں کسی طرح بھی نباہ نہیں ہوپاتااور نوبت طلاق تک پہنچتی ہے تو طلاق دینے کی صورت میں  علیحدگی کے بعد لڑکی  کی پرورش کا حق  نو سال تک اس کی والدہ کو حاصل ہوگا؛  لہذا بچی کی عمر نو سال ہونے تک شرعاًوہ اپنی والدہ کی پرورش میں رہے گی، اور اس مدت تک اس کا نان و نفقہ والد کے ذمہ ہوگا، نو سال کی عمر ہونے تک والد بیٹے کو  مانگنے کا حق نہیں رکھتا، البتہ بچی سے ملاقات اس کا حق ہے، جس کی ترتیب باہمی مفاہمت سے بنائی جاسکتی ہے۔نو سال کے بعد اس کی  تربیت کا حق اس کے والد کو حاصل ہوگا؛ لہٰذا اس عمر کے بعد وہ بچی کو ماں سے لینے میں حق بجانب ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

 "(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء، وقدر بسبع، وبه يفتى؛ لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبراً وإلا لا، (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم، بحر بحثاً.

وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع، وبه يفتى".

(3/566، باب الحضانة، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201752

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں