بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کی شرط پر نکاح کرنا


سوال

اگر کوئی شخص نکاح کرتا ہے، اس شرط کے ساتھ کہ نکاح کے بعد طلاق دےتو یہ نکاح درست ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں نکاح صحیح ہو گا،اور  مذکورہ  طلاق کی شرط خلاف عقدِ  نکاح ہے ،لہذ ا اس  طرح  کی شرط لگانا صحیح نہیں ہے، اور  مذکورہ  شخص پر طلاق دینا لازم نہیں ، نیز اگر   طلاق کی شرط پر نکاح کرنے سے  مراد   مطلقہ کے سابق  شوہر کے لیے  حلال کرنے کی غرض سے نکاح کرنا اور  طلاق دینا ہو  تو   اگرچہ   نکاح  درست  ہوجائے گا،  مگر  ایسے شخص پر  لعنت   بھیجی   گئی  ہے۔

مسند احمد بن حنبل میں  ہے:

"عن أبي هريرة، قال: لعن ‌رسول ‌الله صلى اللہ علیه و سلم المحل، و المحلل له."

(مسند ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ، ج:14 ص:42  ط: مؤسسة الرسالة)

فتاوی شامی  میں ہے:

"(‌وكره) ‌التزوج للثاني (تحريما) لحديث «لعن المحلل والمحلل له» (بشرط التحليل)كتزوجتك على أن أحللك(وإن حلت للأول) لصحة النكاح وبطلان الشرط فلا يجبر على الطلاق كما حققه الكمال، خلافا لما زعمه البزازي........(أما إذا أضمر ذلك لا) يكره (وكان) الرجل (مأجورا) لقصد الإصلاح وتأويل اللعن إذا شرط الأجر ذكره البزازي (قوله: أما إذا أضمر ذلك) محترز قوله بشرط التحليل (قوله: لا يكره) بل يحل له في قولهم جميعا قهستاني عن المضمرات (قوله: لقصد الإصلاح) أي إذا كان قصده ذلك لا مجرد قضاء الشهوة ونحوها. و أورد السروجي أن الثابت عادة كالثابت نصًّا أي فيصير شرط التحليل كأنه منصوص عليه في العقد فيكره. و أجاب في الفتح بأنه لايلزم من قصد الزوج ذلك أن يكون معروفا بين الناس، و إنما ذلك فيمن نصب نفسه لذلك و صار مشتهرًا به اهـ تأمل."

(کتاب الطلاق، باب الرجعة، ج:3 ص:414،415 ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508101057

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں