بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کی نیت کے بغیر بیوی کو کنایہ الفاظ کہنا / صریح اور کنایہ الفاظ سے طلاق


سوال

میں نے اپنی بیوی سے  کئی بار لڑکر کہا کہ " اگر آپ میرے  ساتھ  خوش نہیں تو اپنے باپ کے گھر جاسکتی ہیں" ،  ایک مرتبہ ایسا کہا کہ:" آپ کا مہر دوں گا، اگر آپ میرےساتھ خوش نہیں تو اپنے باپ کے  گھر جا" ؛ کیوں  کہ اس کا مہر میرے ذمے  باقی ہے،  ایک مرتبہ جب اس نے فون اٹھا یا تو میں نے کہا کہ: ’’آپ کیا چاہتی  ہیں وہ پرچی پر لکھ  کر بھیج دو‘‘،  یہ سب باتیں جو  میں نے اوپر بیان کی  ہیں، یہ فون پہ ہوئی تھی،  حالاں کہ میرا ارادہ طلاق کا نہیں تھا، بلکہ طلاق دینے والے شخص سے میں بہت نفرت کرتا ہوں،  یہ مذکورہ الفاظ میں نے تنبیہہ اور دھمکی  کے لیے استعمال کیے ہیں، میرا کوئی ارادہ طلاق کا نہیں ہے،  مگر کئی  بار ایسا کہنے سے مجھے شک پڑگیا ہے، پھر میں نے گوگل پر سرچ کیا تو شک میں اضافہ ہوا، حالاں  کہ طلاق کے بارے میں میری  شروع  ہی سے نیت یہ ہے کہ جب تک ارادہ کرکے طلاق کے الفاظ نہ بولا جائے تو طلاق واقع نہیں ہوتی، مگر اب تھوڑا شک پڑ گیا ہے،  آپ مہربانی کرکے میرے الفاظ اور نیت جو میں نے اوپر بیان کی ہے، اسے ملحوظ رکھ کر بتائیں کہ  کیا اس سے میرے نکاح میں فرق پڑ گیا ہے کہ نہیں؟ اور اگر پڑ گیا ہے تو رجوع کا کیا طریقہ ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ ميں  آپ نے جو الفاظ  طلاق كي نیت كے بغیر كہے ہیں ، ان سے آپ كی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، نکاح بدستور قائم ہے۔

باقی طلاق  واقع ہونے  کے حکم سے   متعلق آپ کی راہ نمائی کے لیے  تمہید کے طور پر  چند باتیں درج ذیل ہیں  :

1-   بیوی پر طلاق واقع ہونے کے لیے طلاق کے الفاظ کا ہونا ضروری ہے، زبان سے  اگر طلاق کے الفاظ نہ کہے اور محض دل میں خیال یا وسوسہ آجائے  تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔

2-   کسی بھی لفظ سے طلاق کی نیت کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے، بلکہ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ لفظ طلاق کی صلاحیت رکھتا ہو، اور اس میں طلاق کا احتمال موجود ہو۔ ایسا لفظ جو طلاق کا احتمال نہیں رکھتا اس سے اگر طلاق دینے کی نیت کی بھی تو  کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

3-  طلاق کے الفاظ دو قسم کے ہوتے ہیں: (1) صریح (2) کنایہ 

صریح :  سے مراد وہ لفظ ہے جس کاعمومی استعمال طلاق ہی کے لیے ہو،جیسے لفظ طلاق ہے،یہ طلاق کے وقوع میں صریح ہے ، اگر کسی نے بیوی کو صریح الفاظ کے ساتھ طلاق دے دی تو خواہ وہ الفاظ  کسی بھی مقصد  (ڈرانے، دھمکانے، مذاق وغیرہ) کے لیے  کہے ہوں، ان سے بغیر نیت کے طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

کنایہ :   سے مراد  وہ  الفاظ ہیں جو اصلاً طلاق کے لیے وضع نہ ہوں، بلکہ ان میں طلاق اور غیر طلاق دونوں کا احتمال ہو، ان الفاظِ کنائی سے طلاق واقع ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ طلاق کا معنی مراد لیا جائے،  بعض الفاظ میں یہ معنی نیت ہی کے ذریعے مراد لیا جاتا ہے  اور بسا اوقات مذاکرۂ  طلاق، دلالتِ حال، عرف اور الفاظِ کنائی کے صریح بن جانے کی وجہ سے بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے،  الفاظِ کنائی بہت سارے ہیں، یہاں سب کا احاطہ و شمار ممکن نہیں ہے، اور کنایہ الفاظ سے جو طلاق واقع ہوتی ہے وہ طلاق بائن ہوتی ہے۔

اللباب في شرح الكتاب میں ہے:

" والكنايات ثلاثة أقسام: قسم منها يصلح جوابا ولا يصلح رداً ولا شتما، وهي ثلاثة ألفاظ: أمرك بيدك، اختاري، اعتدي، ومرادفها، وقسم يصلح جوابًا وشتمًا ولايصلح رداً، وهي خمسة ألفاظ: خلية، برية، بتة، بائن، حرام، ومرادفها، وقسم يصلح جوابًا ورداً ولايصلح سباً وشتما؛ وهي خمسة أيضا: اخرجي، اذهبي، اغربي، قومي، تقنعي، ومرادفها، ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق بشيء منها إلا بالنية، والقول قوله في عدم النية، وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع بكل لفظ لا يصلح للرد وهو القسم الأول والثاني، وفي حالة الغضب لا يقع بكل لفظ يصلح للسب والرد وهو القسم الثاني والثالث، ويقع بكل لفظ لا يصلح لهما بل للجواب فقط وهو القسم الأول. كما في الإيضاح."

(3 / 44، کتاب الطلاق، ط؛ المکتبۃ العلمیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200770

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں