بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق كی نیت سے لفظِ طلاق لکھنا


سوال

اگر کسی نے لفظ طلاق لکھا اور نیت طلاق کی تھی تو طلاق واقع ہوگی ؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر صرف لفظ ’’طلاق‘‘ لکھا، آگے پیچھے نام وغیرہ کچھ نہیں لکھا، اور لکھ کر بیوی کو نہیں دیا تو لکھتے وقت اپنی بیوی کو طلاق دینے کی نیت ہو نے کی صورت میں بیوی پر  واقع ہوجائے گی۔

فتاوى ہندیہ میں ہے:

"وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق يقع وإلا فلا وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو أما إن أرسل الطلاق بأن كتب أما بعد فأنت طالق فكلما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة."

(کتاب الطلاق، الفصل السادس فی الطلاق بالکتابۃ، ج:1، ص:446، ط:رشیدیہ)

بدائع الصنائع ميں هے:

"وأما النوع الثاني فهو أن ‌يكتب ‌على ‌قرطاس أو لوح أو أرض أو حائط كتابة مستبينة لكن لا على وجه المخاطبة امرأته طالق فيسأل عن نيته؛ فإن قال: نويت به الطلاق وقع، وإن قال: لم أنو به الطلاق صدق في القضاء."

(ج:3، ص:109، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508100119

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں