بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ْطلاق کی نیت کرنے سے طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟


سوال

امجد منہ سے مسلسل بول رہا تھا نہیں نہیں اس طرح نہیں ایسی نیت نہیں ہوسکتی یہ الفاظ بولتے ہوئے اس نے دل میں پکی نیت سے کہا کہ اگر امجد نے روزہ توڑا تو زاہدہ کو طلاق، کیا روزہ توڑنے پر زاہدہ کو طلاق ہوگی؟

جواب

صورت مسئولہ میں امجد نے صرف دل میں یہ سوچا ہواگر اس"(امجد)نےروزہ توڑا  تو زاہدہ کو طلاق"اور امجد نےمنہ سے مذکورہ الفاظ ادانہیں کیے ہو،  اس کے بعد امجد روزہ توڑ بھی دے،تو زاہدہ(امجد کی بیوی پر)کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی؛ کیوں کہ طلاق واقع ہونے کے لیے طلاق کے صریح الفاظ یا طلاق کے کنائی الفاظ کا ہونا ضروری ہے،  جب کہ مذکورہ خط کشیدہ الفاظ طلاق کے نہ صریح الفاظ میں داخل ہیں اور نہ ہی طلاق کے کنائی الفاظ میں داخل ہیں۔

اور اگر اس نے زبان سے بولا ہے تو اس کی وضاحت کرکے دوبارہ معلوم کرلیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قوله:(هو  رفع  قيد النكاح في الحال أو المآل بلفظ مخصوص هو مااشتمل على الطلاق)...صريحا... أو كناية."

(كتاب الطلاق، ج:3، ص:226، ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌‌[ركن الطلاق]قوله :(وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية."

(كتاب الطلاق، ج:3، ص:230، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409101646

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں