بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مطلقہ اپنی عدت کس گھر میں گزارے گی؟ اور دورانِ عدت مطلقہ کا نفقہ کس پر لازم ہے؟


سوال

کسی عورت کو طلاق ہو جائے تو وہ عدت کس گھر میں گزارے گی؟شوہر کے گھر میں یا والدین کے گھر میں؟ دوران عدت عورت کا نان نفقہ کس کے ذمہ ہوگا؟

جواب

عورت کو  طلاق دیتے وقت  جس گھر میں  اُ س کےشوہر کی رہائش  ہے،  اُسی گھر میں وہ عورت  عدت گزارے گی ، بغیر شرعی مجبوری کے مطلّقہ کا اپنے شوہر کے گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے ۔

نیز اگر مطلّقہ اپنے شوہر کے گھر عدت گزار رہی ہے تو عدت کے دوران مطلّقہ کا نفقہ شوہر کے ذمہ لازم ہے اور اگر شوہر  کی اجازت کے بغیر مطلّقہ  اپنی عدت کسی اور گھر میں گزار رہی ہے تو ایسی صورت میں عدت کا نفقہ شوہر کے ذمہ لازم نہیں ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه".

( كتاب الطلاق، باب العدة ، (336/3) ط: قديمي )

فتاوى هنديه ميں ہے :

"المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيّا أو بائنّا أو ثلاثّا حاملاّ كانت المرءة أو لم تكن. ( الفتاوى الهندية: كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات ، الفصل الثالث في نفقة المعتدة."

(1 / 557 ) ط: حقانیه پشاور)

فتاوی شامی میں ہے:

"(لا) نفقة لأحد عشر ... و (خارجة من بيته بغير حق) وهي الناشزة حتى تعود ولو بعد سفره خلافا للشافعي، والقول لها في عدم النشوز بيمينها، وتسقط به المفروضة لا المستدانة في الأصح كالموت، قيد بالخروج؛ لأنها لو مانعته من الوطء لم تكن ناشزة".

 (3/ 576، ط: سعید)

"المحیط البرہانی" میں ہے:

''والمعنى في ذلك أن النفقة إنما تجب عوضاً عن الاحتباس في بيت الزوج، فإذا كان الفوات لمعنى من جهة الزوج أمكن أن يجعل ذلك الاحتباس باقياً تقديراً، أما إذا كان الفوات بمعنى من جهة الزوجة لا يمكن أن يجعل ذلك الاحتباس باقياً تقديراً، وبدونه لا يمكن إيجاب النفقة.'' (4/170)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201636

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں