بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کی عدت کی مدت اور احکام


سوال

اگر کسی عورت کو  طلاق ہوجائے تو وہ عدت کیسے کرے؟  پوری تفصیل سے بتائیں کہ کتنے دن کی ہوتی ہے؟ اور اس میں کن چیزوں سے منع کیا ہے اسلام میں؟

جواب

      نکاح کے بعد رخصتی یا خلوتِ صحیحہ ہوچکی ہو تو طلاق کے بعد عدت مکمل تین ماہواریاں گزرنا ہے، بشرط یہ کہ عدت گزارنے والی خاتون امید سے نہ ہو، اگر وہ امید سے ہے تو اس کی عدت وضع حمل (بچے کی پیدائش تک) ہوگی۔ اگر نکاح کے بعد رخصتی یا خلوتِ صحیحہ نہ ہوئی ہو تو طلاق کے بعد عدت نہیں ہے۔

    طلاق کی عدت کے دوران عورت کے لیے بلاضرورتِ شدیدہ گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں، اگر طلاقِ بائن ہو  تو زیب و زینت اختیار کرنا جائز نہیں، اگر طلاقِ رجعی ہو تو بیوی کے لیے زیب و زینت اختیار کرنا جائز ہے، بلکہ بہتر ہے، تاکہ شوہر رجوع پر آمادہ ہو۔

البحر الرائق  میں ہے :

"وجب في الموت إظهاراً للتأسف علی فوات نعمة النکاح؛ فوجب علی المبتوتة إلحاقاً لها بالمتوفی عنها زوجها بالأولی؛ لأن الموت أقطع من الإبانة ... دخل في ترك الزینة الامتشاط بمشط أسنانه ضیقة لا الواسعة، کما في المبسوط، وشمل لبس الحریر بجمیع أنواعه وألوانه ولو أسود، وجمیع أنواع الحلي من ذهب وفضة وجواهر، زاد في التاتارخانیة القصب".

(۴/۲۵۳، کتاب الطلاق ، فصل في الإحداد)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه".(3/ 536)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"المطلقة الرجعية تتشوف وتتزين ويستحب لزوجها أن لايدخل عليها حتى يؤذنها أو يسمعها خفق نعليه إذا لم يكن من قصده المراجعة وليس له أن يسافر بها حتى يشهد على رجعتها كذا في الهداية". (10/193)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201504

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں