بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کی عدت کے درمیان ملازمت کے لیے نکلنا


سوال

کیا طلاق کے بعد بھی وہی معاملات ہوں گے عدت کے جو بیوہ کی عدت کے ہوتے ہیں؟ جاب کرسکتے ہیں طلاق کے بعد یا بیوہ ہی کی طرح تین ماہ گھر میں رہنا ہوگا؟

جواب

 طلاق کی عدت بشرطیکہ عورت حاملہ نہ ہو تین مکمل ماہواریاں ہوتی ہے ، اگر کسی عورت کو ماہواری نہیں آتی ہو تو اس کے لیے طلاق کی عدت تین مہینہ ہوتی ہے اور حاملہ عورت کی عدت وضع حمل یعنی بچے کی ولادت تک کا وقت ہے۔نیزشوہر کے انتقال کی صورت میں عدت چار ماہ دس دن ہے، بشرطیکہ شوہر کا انتقال چاند کی پہلی تاریخ کو ہوا اگر شوہر کا انتقال چاند کی پہلی تاریخ کے بعد ہوا ہو تو اس کی عدت 130 ایک سو تیس دن ہوگی۔

نیز طلاق کی عدت کے ایام کا نفقہ شوہر کے ذمہ لازم ہوتا ہے اورعورت کے لیے عدت کے دوران جانی یا مالی نقصان کے اندیشہ کے بغیر گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی، لہذا اگر عورت کو شدید ضرورت لاحق نہیں ہے تو عورت عدت کے دوران ملازمت کے لیے گھر سے نہیں نکل سکتی، البتہ اگر خرچ کا کوئی انتظام نہ ہو، شوہر بھی نفقہ کی ذمہ داری پوری نہ کر رہا ہو اور ملازمت کے علاوہ خرچ کی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو ایسی مجبوری کی حالت میں عدتِ طلاق کے دوران عورت کے لیے ملازمت کی غرض سے پردہ کے اہتمام کے ساتھ دن کے اوقات میں گھر سے نکلنے کی اجازت ہوگی اور اس پر لازم ہوگا کہ رات ہونے سے پہلے واپس گھر لوٹ آئے۔ 

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"إذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو ثلاثا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء سواء كانت الحرة مسلمة أو كتابية كذا في السراج الوهاج.

والعدة لمن لم تحض لصغر أو كبر أو بلغت بالسن ولم تحض ثلاثة أشهر كذا في النقاية".

(كتاب الطلاق، الباب الثالث عشر في العدة، 1/ 526، ط: رشيدية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها حرمة الخروج من البيت لبعض المعتدات دون بعض... فإن كانت معتدة من نكاح صحيح وهي حرة مطلقة بالغة عاقلة مسلمة والحال حال الاختيار فإنها لا تخرج ليلا ولا نهارا سواء كان الطلاق ثلاثا أو بائنا أو رجعيا... وأما المتوفى عنها زوجها فلا تخرج ليلا ولا بأس بأن تخرج نهارا في حوائجها... بخلاف المطلقة فإن نفقتها على الزوج فلا تحتاج إلى الخروج... وهذا في حالة الاختيار.

وأما في حالة الضرورة فإن اضطرت إلى الخروج من بيتها بأن خافت سقوط منزلها أو خافت على متاعها أو كان المنزل بأجرة ولا تجد ما تؤديه في أجرته في عدة الوفاة فلا بأس عند ذلك أن تنتقل، وإن كانت تقدر على الأجرة لا تنتقل".

(كتاب الطلاق، فصل: وأما أحكام العدة،  3/ 205، ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في الهداية: وأما المتوفى عنها زوجها فلأنه لا نفقة لها فتحتاج إلى الخروج نهارا لطلب المعاش وقد يمتد إلى أن يهجم الليل ولا كذلك المطلقة لأن النفقة دارة عليها من مال زوجها. اهـ.

قال في الفتح: والحاصل أن مدار حل خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره، فمتى انقضت حاجتها لا يحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها. اهـ".

(‌‌كتاب الطلاق، باب العدة، 3/ 536، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101752

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں