بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کی عدت کے خرچے کی ذمہ داری اور مقدار


سوال

میری بیٹی کی شادی 29 دسمبر 2018 کو ہوئی، جو تقریباً 4 سال 4 ماہ 14 دن تک قائم رہی، اس دوران نہ ہی کوئی حمل ہوا اور نہ ہی اب کوئی حمل ہے، یہ رشتہ مذکورہ مدت تک قائم رہنے کے بعد مؤرخہ 13 مئی بروز ہفتہ 2023 کو طلاق پر ختم ہوگیا، اب سوال یہ ہے کہ عدت کا خرچہ کس کے ذمے ہوگا؟ اور عدت کے خرچے کا حساب کس طرح لگایا جائے گا؟ اور موجودہ صورتِ حال میں یہ خرچہ کتنا بنے گا (رقم کی صورت میں)؟

جواب

طلاق دینے کی صورت میں عدت کا خرچہ شرعاً مرد کے اوپر لازم ہے، البتہ اس کی کوئی خاص مقدار متعین نہیں، بلکہ اس میں مرد اور عورت کی حالت کا اعتبار ہے۔ جتنا شوہر کی  وسعت ہو اور عورت کی ضرورت پوری ہوسکے اسی کے بقد ر نان نفقہ واجب ہے۔ لہٰذا شوہر کی آمدنی اور عورت کے ضروری اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے باہمی رضامندی سے خرچہ متعین کرلیا جائے۔

واضح رہے کہ اگر مطلقہ بیوی عدت کے ایام شوہر کے گھر میں گزارے یا شوہر کی اجازت سے میکے میں گزارے تو دونوں صورتوں میں عدت کا خرچہ دینا شوہر پر لازم ہے اور اگر مطلقہ بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر کسی اور جگہ چلی گئی تو عدت کا خرچہ دینا شوہر پر لازم نہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا حاملا كانت المرأة، أو لم تكن كذا في فتاوى قاضي خان ... والمعتدة إذا كانت لا تلزم بيت العدة بل تسكن زمانا وتبرز زمانا لا تستحق النفقة كذا في الظهيرية . ولو طلقها، وهي ناشزة فلها أن تعود إلى بيت زوجها، وتأخذ النفقة ...  وكما تستحق المعتدة نفقة العدة تستحق الكسوة كذا في فتاوى قاضي خان ويعتبر في هذه النفقة ما يكفيها وهو الوسط من الكفاية وهي غير مقدرة؛ لأن هذه النفقة نظير نفقة النكاح فيعتبر فيها ما يعتبر في نفقة النكاح."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الثالث في نفقة المعتدة،  ج:1/ 558، ط: دار الفكر)

البحر الرائق  ميں  هے:

"المعتدة إذا خرجت ‌من ‌بيت ‌العدة تسقط نفقتها ما دامت على النشوز فإن عادت إلى بيت الزوج كان لها النفقة و السكنى، ثم الخروج عن بيت العدة على سبيل الدوام ليس بشرط لسقوط نفقتها فإنها إذا خرجت زمانا وسكنت زمانا لاتستحق النفقة."  

(کتاب الطلاق، باب النفقة ،ج:4/ 217،ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101764

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں