بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کی عدت کی مدت، رجوع کرنے سے طلاق کا حکم


سوال

اگر بیوی کو ایک یا دو طلاق دے دی جائیں تو ان کی عدت کی کیا مدت ہو گی۔ 1: کیا رجوع کرنے سے وہ باقی رہیں گی؟ 2: ان کو غیر موثر کرنے کا کیا طریقہ ہے؟

جواب

1:    نکاح کے بعد رخصتی یا خلوتِ صحیحہ ہوچکی ہو تو طلاق کے بعد عدت مکمل تین ماہواریاں گزرنا ہے، بشرط یہ کہ عدت گزارنے والی خاتون امید سے نہ ہو، اگر وہ امید سے ہے تو اس کی عدت وضع حمل (بچے کی پیدائش تک) ہوگی۔ اگر نکاح کے بعد رخصتی یا خلوتِ صحیحہ نہ ہوئی ہو تو طلاق کے بعد عدت نہیں ہے۔

2: طلاقِ رجعی کی عدت میں رجوع کا حق ہوتا ہے، اور رجوع کرنے سے نکاح برقرار رہنے کی وجہ سے عدت کالعدم ہوجاتی ہے، البتہ جو طلاقیں ( ایک یا دو)  دے دی گئیں، وہ واقع ہونے کے بعد  کالعدم نہیں ہوسکتیں، لہذا ایک طلاق رجعی دی ہو تو رجوع کی صورت میں آئندہ دو طلاق کا حق ہوگا اور دو طلاق رجعی دی تھیں تو رجوع کے بعد آئندہ ایک طلاق کا حق ہوگا۔

اور دوبارہ طلاق دینے پر از سرِّنو  تین ماہواریاں عدت گزارنا لازم ہوگا۔

3:غیرمؤثربنانے سے مراد اگر طلاق کو غیرمؤثر بنانا مراد ہے تو اس کا حکم اوپر گزر چکا کہ طلاق دے دینے کے بعد غیر مؤثر نہیں ہوتی، الا یہ کہ مطلقہ عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرلے اور دوسرے شوہر سے ازدواجی تعلق قائم ہونے کے بعد وہ طلاق دے دے اور اس کی عدت بھی گزر جائے اور پھر پہلا شوہر دوبارہ نکاحِ صحیح کرلے تو اب اسے از سر نو تین طلاق کا حق حاصل ہوگا۔

 باقی شوہر نے اگر طلاق رجعی دی ہےتو عدت کے دوران قولی (محض زبانی رضامندی سے) یا فعلی (صحبت کرنے سے) رجوع کرنے سے نکاح برقرار رہےگا، تاہم اگر طلاقِ بائن دی ہے تو ازسرِّ نو شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے  ساتھ نکاح کرنا ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) أي عدة الدخول حقيقة

إذ لا رجعة في عدة الخلوة ابن كمال، وفي البزازية: ادعى الوطء بعد الدخول وأنكرت فله الرجعة لا في عكسه.

وتصح مع إكراه وهزل ولعب وخطإ (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة."

(کتاب الطلاق، باب الرجعۃ، ج:3، ص:397، ط:ایج ایم سعید)

الموسوعة الفقهية میں ہے:

"( الْفَرْعُ الثَّانِي ) إِنْ طَلَّقَهَا رَجْعِيًّا ثُمَّ ارْتَجَعَهَا فِي الْعِدَّةِ ، ثُمَّ طَلَّقَهَا ، اسْتَأْنَفَتِ الْعِدَّةَ مِنَ الطَّلاَقِ الثَّانِي ، سَوَاءٌ كَانَ قَدْ وَطِئَهَا أَمْ لاَ ؛ لأَِنَّ الرَّجْعَةَ تَهْدِمُ الْعِدَّةَ."

(تداخل العدتين، ج:11، ص:92، ط:وزارة الاوقاف والشئون الاسلامية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144210201423

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں