بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق كے مختلف الفاظ سے طلاق كا حكم


سوال

آج صبح میرے بیٹے کی نوکری کو لے کر میری اپنے شوہر سے لڑائی ہوگئی، میرا بیٹا 20 سال کا ہے، اور وہ میرے شوہرکے کزن کے ہاں نوکری کرتا ہے، اس کی نوکری کو ایک مہینہ ہوچکا ہے، تو میں نے اپنے شوہر  سے کہا کہ تم ذرا  اپنے اس کزن کو فون کردو کہ وہ ہمارے بیٹے سے صرف آفس کا کام کروائے، باہر کا  کام نہ کروائے، کیوں کہ اس میں کافی مسئلے تھے،   میں نے پہلے ذرا ضد کی، لیکن وہ نہ مانے ، پھر میرے شوہر کے بار بار انکار کرنے کی وجہ سے میرے شوہر  نے مجھ سے کہا کہ تم کیا چاہتی ہو کہ میں تم کو طلاق دے دوں، پھر میں چپ نہ ہوئی، اور میں بولتی رہی، پھر میرے شوہر نے تنگ آکر کہا کہ میرے بیٹے سے مخاطب ہوکر کہ تم نوکری  پر مت جانا  ورنہ طلاق ہوجائے گی، تو اب میرا بیٹا اسی وجہ سے نوکری پر نہیں گیا ہے، کہ کہیں اس کے جانے سے طلاق نہ ہوجائے۔

میری شادی کو 22 سال ہوگئے ہیں اور اس طرح  میرے شوہر نے پہلے بھی کئی بار طلاق کا لفظ یوں ہی استعمال کیا ہے کہ طلاق دے دوں؟ یا طلاق ہوجائے گی، یا علیحدگی  لے لو۔ اور میرے گھر سے نکل جاؤ، اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ، میں خرچہ بھیج دوں گا۔آج صبح کے واقعے کے چھ سات گھنٹے بعد میرے شوہر کا کہنا  ہے کہ یہ سب میں نے اپنی بیوی کو چپ کروانے کے لیے اور چپ کروانے کی نیت سے بولا تھا۔

وضاحت: شوہر کی نیت یہ نہیں تھی کہ اگر بیوی چپ نہ ہو یا اگر بیٹا نوکری پر چلا جائے تو فوری طلاق ہوجائے گی، بلکہ بیوی کو ڈرانے کے لیے کہا تھا کہ مزید جھگڑا مت کرے، ورنہ خطرہ ہے کہ مستقبل میں نوبت طلاق تک جانے کا خطرہ ہے۔، کیوں کہ اکثر بیٹے کی نوکری کو لے کر ان دونوں میاں بیوی میں جھگڑا ہوتا رہتا ہے، اور پچھلے برسوں میں بھی جب جھگڑے ہوئے تو تب بھی شوہر نے بیوی کو ڈرانے اور سمجھانے کی نیت سے ایسے الفاظ استعمال کیےہیں کہ بیوی مزید جھگڑا نہ کرےاور شوہر کے صبر کا بندھن ٹوٹ نہ جائےاورا س کی زبان سے ایسے لفظ نہ نکل جائے کہ جس سے ان کا رشتہ ختم ہوجائے۔

جواب

واضح رہے کہ طلاق کے وقوع لے لیے ایسے الفاظ کا استعمال کرنا ضروری ہے جو ماضی یا حال پر دلالت کرتے ہو، چناں چہ اگر ایسے الفاط کا استعمال کیا جو مستقبل پر دلالت کرتے ہوں یا جو صرف ڈرانے کے لیے استعمال کیے جائیں، تو ان سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ شوہر نے "تم نوکری پر مت جانا  ورنہ طلا ق ہوجائے گی" کہا ہے جو مستقبل کے زمانے پر دلالت کرتا ہے  اور محض ایک دھمکی آمیز جملہ ہے، لہذا اس سے طلاق واقع نہیں ہوئی، اور اگر بیٹا نوکری پر چلا بھی جائے تو طلاق نہیں ہوگی، نیز اس کے علاوہ جن الفاظ کا استعمال کیا تو ان میں "علیحدگی لے لو" کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ مجھ  سے علیحدگی طلب کرلو اور ایک یہ کہ میں نے تم کو علیحدہ کر لیا ہے، لہذا علیحدگی لے لو، اس دوسری  صورت میں طلاق واقع  ہوجاتی كيوں كہ یہ الفاظ صريح ہيں، ان سےبغير نيت كے  بھی طلاق واقع  ہوجاتی ہے ، تاہم شوہر کے بیان کے مطابق چوں کہ یہ صرف ڈرانے کے لیے کہا؛  لہذا اس کو پہلے مطلب پر محمول کریں گے، چناں چہ  اس سے  بھی کوئی  طلاق واقع نہیں  ہوئی۔اسی طرح "  طلاق دے دوں؟ " بھی   ایک دھمکی آمیز جملہ ہے، جس کو شوہر نے صرف ڈرانے کے لیے کہا ہے، لہذا اس سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، اسي طرح  میرے گھر سے نکل جاؤ، اپنی ماں کےگھر چلی جاؤ سے بھی چوں کہ طلاق کی نیت نہیں تھی، لہذا طلاق واقع نہیں ہوئی۔

العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ:

"صيغة ‌المضارع لا يقع بها الطلاق إلا إذا غلب في الحال كما صرح به الكمال بن الهمام."

(کتاب الطلاق، 1/ 38، ط: دار المعرفة)

المحىط البرہاني ميں ہے:

"لأن قوله: طلاق مي كنم للمحض للحال وهو تحقيق بخلاف قوله: كنم؛ لأنه تمحض للاستقبال وهو وعد، وبالعربية قوله: ‌أطلق، لا يكون طلاقاً في أنه دائر بين الحال والاستقبال فلم يكن تحقيقاً مع الشك."

(کتاب الطلاق، ‌‌الفصل السابع والعشرون في المتفرقات، 3/ 473، ط: دار الكتب العلمية)

امداد الاحکام میں ہے:

"فإن قوله"علیحدگی اختیار کرتا ہوں"بمعنی"جدائی"، و صرح في الخلاصة أن لفظة"جدائی"لا یحتاج إلی النیة."

(امداد الاحکام، 2/ 457، ط: مکتبه دار العلوم کراچی)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"لا يقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة حال كذا في الجوهرة النيرة. ثم الكنايات ثلاثة أقسام (ما يصلح جوابا لا غير) أمرك بيدك، اختاري، اعتدي (وما يصلح جوابا وردا لا غير) اخرجي اذهبي اعزبي قومي تقنعي استتري تخمري (وما يصلح جوابا وشتما) خلية برية بتة بتلة بائن حراموالأحوال ثلاثة (حالة) الرضا (وحالة) مذاكرة الطلاق بأن تسأل هي طلاقها أو غيرها يسأل طلاقها (وحالة) الغضب ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية والقول قول الزوج في ترك النية مع اليمين وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع الطلاق في سائر الأقسام قضاء إلا فيما يصلح جوابا وردا فإنه لا يجعل طلاقا كذا في الكافي وفي حالة الغضب يصدق في جميع ذلك لاحتمال الرد والسب۔۔۔ ولو قال لها في غضبه: ‌اخرجي ولا نية له كان على الإذن إلا إذا نوى ‌اخرجي حتى تطلقي كذا في الخلاصة."

(کتاب الطلاق، الباب الثانی، الفصل الخامس في الكنايات، 1/  374، 438، ط: دار الفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100552

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں