زید لوگوں کے سامنے اقرار کرتا ہےکہ وہ اپنی بیوی کو تین طلاق دے چکا ہے،حالانکہ اس نے ایک بھی نہیں دی تھی نیز اس کی بیوی حمل سے ہے، کیا اس کو رجوع کا حق ہے یا نہیں یا کوئی اور صورت باقی ہے جس میں وہ اکٹھے رہ سکیں ؟
صورتِ مسئولہ میں زید کے طلاق کے اقرار سے اس کی بیوی پر قضاءً تینوں طلاقیں واقع ہوگئی اور زید کی بیوی حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی، چناں چہ اب رجوع یا تجدیدِ نکاح کی گنجائش نہیں۔ نیز حالتِ حمل میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، عدت وضع حمل پر مکمل ہو جائے گی۔
رد المحتار میں ہے :
"ولو أقر بالطلاق كاذبا أو هازلا وقع قضاء لا ديانة."
(كتاب الطلاق،ركن الطلاق،ج3،ص236،ط:سعید)
فتاوی عالم گیری میں ہے:
"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية."
(كتاب الطلاق،الباب السادس،فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به،ج1،ص473،ط:رشیدیہ)
الدر المختار میں ہے:
"(و) في حق (الحامل) مطلقا ولو أمة، أو كتابية، أو من زنا بأن تزوج حبلى من زنا ودخل بها ثم مات، أو طلقها تعتد بالوضع جواهر الفتاوى (وضع) جميع (حملها)."
(كتاب الطلاق،باب العدة،ج3،ص511،ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144412100160
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن