بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 ذو الحجة 1446ھ 18 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد شادی میں دی گئی چیزوں کا حکم


سوال

میں نے یہاں ایک فتوی شوہر کے حوالے سےجمع کرایا تھا، تو یہاں جامعہ والوں نےفتوی دیا تھا کہ تین طلاق ہوگئی ہیں،پھر یہاں پر تحکیم کرائی تھی اس میں بھی یہی واضح ہوا تھا کہ تین طلاق ہوگئی ہیں۔

اب ہمارے درمیان کچھ چیزیں ہیں اس کے بارے میں شرعی حکم معلوم کرنا ہے۔

1-انہوں نے ایک انگوٹھی سونے کی اور ایک نتھی آرٹیفشل گفٹ کی تھی لیکن اب وہ ان کے پاس ہے،اور کپڑےوغیرہ جوسب کچھ دیا تھاوہ سب ان کے پاس ہےکوئی چیز بھی نہیں دی۔

2-ہم نےڈیڑھ لاکھ ان کو دیے ہیں،ایک لاکھ روپے ہم نے تحفے کی جگہ یعنی سونے کی انگوٹھی اور گھڑی وغیرہ جو دیا جاتا ہے،ہم نے اس کی جگہ ایک لاکھ دیے،اور 50ہزار کپڑوں کی مد میں دیے۔

اب سوال یہ ہے کہ ان چیزوں کا کیا حکم ہے ان کی چیزیں میری ہوگئی اور ہماری چیزیں ان کی ہوگئی ہیں یا نہیں؟شرعی راہ نمائی فرمائیں،دوسری انہوں نے عدت میں نان ونفقہ کا ایک روپیہ بھی نہیں دیا،کیا عدت کا نان و نفقہ اب ان پر واجب ہے یا نہیں؟

نوٹ:ہم نے ان کو تمام چیزیں لوٹا دی ہیں،اور اب یہ ہماری چیزیں لوٹا دیں تو کیا یہ ممکن ہے،تو کیا ایسا کرنا شرعاً درست ہے؟

جواب

نکاح  کے موقع پر لڑکی کو جو میکہ والوں اور سسرال والوں کی طرف سے سامان، کپڑے اور زیور  وغیرہ ملتا ہے اس کے شرعی حکم میں یہ تفصیل ہے کہ جو سامان جہیز، کپڑے، اور زیور وغیرہ لڑکی کو میکہ والوں کی طرف سے ملتا ہے وہ لڑکی کی ملکیت شمار ہوتی ہے، اسی طرح  لڑکے والوں کی طرف سے جو عام استعمال کی چیزیں مثلاً کپڑے، جوتے، گھڑی وغیرہ لڑکی کو دیے جاتے ہیں، اسی طرح منہ دکھائی کے موقع پر جو چیز دی جائے، یہ سب بھی لڑکی ہی کی ملکیت ہے، لہذا میاں بیوی میں طلاق کے بعد اس کا لڑکی سے مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔

اور لڑکی کو نکاح کے موقع پر مہر کے علاوہ جو زیورات سسرال والوں کی طرف سے ملتے ہیں، ان میں یہ تفصیل ہے کہ اگر زیورات دیتے وقت سسرال والوں نے اس بات کی صراحت کی تھی کہ یہ بطورِ عاریت یعنی صرف استعمال کرنے کے لیے ہیں تو پھر یہ زیورات لڑکے والوں کی ملکیت ہوں گے، اور اگر سسرال والوں نے ہبہ(گفٹ) اور مالک بناکر دینے کی صراحت کردی تھی تو پھر ان زیورات کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر زیورات دیتے وقت کسی قسم کی صراحت نہیں  کی تھی تو پھر لڑکے کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا، اگر ان کا عرف و رواج بطورِ ملک دینے کا ہے یا ان کا کوئی رواج نہیں ہے تو ان دونوں صورتوں میں زیورات کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر بطورِ عاریت دینے کا رواج ہے تو پھر سسرال والے ہی مالک ہوں گے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ وضاحت کی رو سے  اگر دی گئی چیزیں بطورِ ملکیت کے تھی (یعنی مالک بنا دیا تھا)تو جس کو جو چیز دی وہ اس کا مالک بن گیا،اس سے واپس لینا جائز نہیں۔

اگر سائلہ نے عدت اپنےشوہر کی اجازت کے بغیر اپنے والدین کے گھر پر گزاری ہے تو اس کے لیے کوئی نان نفقہ لازم نہیں تھا،اور اگر عدت شوہر کے گھر میں گزاری ہویاشوہر کی اجازت سےاپنے گھر عدت گزاری اس کے باوجود پھر شوہر نے نان نفقہ نہیں دیا تو اس صورت میں شوہر پر نان نفقہ دینا لازم تھا،لیکن بعد از طلاق عدت کے نان نفقہ کے متعلق کچھ طے نہیں ہوا تھاتواب عدت کے گزشتہ زمانے کے نان نفقہ کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا۔

فتاوی شامی میں ہے:

" (والنفقة لا تصير دينا إلا بالقضاء أو الرضا) أي اصطلاحهما على قدر معين أصنافا أو دراهم، فقبل ذلك لا يلزم شيء، وبعده ترجع بما أنفقت ولو من مال نفسها بلا أمر قاض. 

(قوله : والنفقة لا تصير دينا إلخ) أي إذا لم ينفق عليها بأن غاب عنها أو كان حاضرا فامتنع فلا يطالب بها بل تسقط بمضي المدة."

(كتاب الطلاق، باب النفقة، مطلب لاتصير النفقة دينا إلا بالقضاء أو الرضا، ج:3، ص: 594، ط: سعيد)

وفيه أیضاً:

"كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها".

(باب المهر، ج:3، ص:158، ط:سعید)

وفيه أیضاً:

"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً."

(کتاب النکاح، باب المهر، ج:3، ص:153، ط: سعید)

وفيه أیضاً:

"و المعتمد البناء على العرف كما علمت."

(باب المهر، ج:3، ص:157، ط:سعید)

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

"و إذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها، منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية."

(الفصل السادس عشر فی جهاز البنت، ج:1، ص:327، ط:رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144612100210

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں