بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد نو سال کی عمر تک بچیوں کا حق پرورش ماں کو حاصل ہوگا


سوال

 میری بیٹی کو مورخہ 29 اگست کو اس کے شوہر نے طلاق دے دی تھی، اس کے شوہر سے اس کی دو بیٹیاں ہیں، ایک کی عمر ساڑھے پانچ سال ہے اور دوسری کی عمر نو سال ہے، بچیاں میری بیٹی کے پاس ہیں، لیکن صدمے کی وجہ سے وہ بہت ذہنی دباؤ کا شکار ہے جس کی وجہ سے وہ بچیوں کی ذمہ داری اُٹھانے سے قاصر ہے، میں چاہتا ہوں کہ ان کے والد اپنی بچیوں کی ذمہ داری خود اٹھائیں  اور انہیں اپنے پاس رکھیں اس سلسلے میں ہمارا دین کیا کہتا ہے؟ کہ باپ کو اپنی ذمہ داری پنی بچیوں کی پرورش خود کرنی چاہیے ؟

جواب

واضح رہے کہ نو سال کی عمر تک بچیوں کا حق پرورش والدہ کو حاصل ہوتا ہے اور ا س کے بعد والد کو حاصل ہوتا ہے؛  تا کہ 9 سال کی عمر تک  بچی کی والدہ کے ماتحت   اچھی تربیت ہو سکے، بالخصوص امورِ نسواں میں جو تربیت والدہ کرسکتی ہے والد اس سے قاصر ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں جو بچی نو سال کی ہو چکی ہے ضروری ہے کہ اسے  والد کی تربیت میں دے دیا جائے  ،جب کہ دوسری بیٹی جو ساڑھے پانچ سال کی ہے اس کی پرورش ماں پر لازم ہے  لیکن اگر ماں کفالت سے بالکل عاجز ہو یا وہ اپنا حقِ پرورش ساقط کرنا چاہے  تو نانی کو 9 سال کی عمر تک پرورش کا  حق حاصل ہوگااور اگر وہ فوت ہو گئی ہو تو دادی کو حق حاصل ہوگا۔

اگر والدہ ،نانی اور دادی باہمی رضا مندی سے اپنا حق ساقط کرتے ہوئے والد کے سپرد کرنا چاہیں تو کرسکتےہیں ۔

نیزبچیوں  کی جب تک شادی نہیں ہوجاتی اس وقت تک ان کے نفقہ کی  ذمہ داری باپ ہی   پر بقدرِ  استطاعت   ہوگی، خواہ وہ  ماں کے پاس رہے یا باپ کے ساتھ رہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(والحضانة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا. وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى."

(‌‌كتاب الطلاق،‌‌باب الحضانة،ج3، ص566 ،ط:سعید)

و فیہ ایضاً :

"(تثبت للأم)......(ثم) أي بعد الأم بأن ماتت، أو لم تقبل أو أسقطت حقها أو تزوجت بأجنبي (أم الأم) وإن علت عند عدم أهلية القربى (ثم أم الأب وإن علت) بالشرط المذكور........(قوله: تثبت للأم)..........قال الرملي: ويشترط في الحاضنة أن تكون حرة بالغة عاقلة أمينة قادرة."

(‌‌كتاب الطلاق،‌‌ باب الحضانة، ج3، ص555-563، ط: سعید)

و و فیہ ایضاً:

"(ولا ‌تجبر) من لها ‌الحضانة (عليها إلا إذا تعينت لها) بأن لم يأخذ ثدي غيرها أو لم يكن للأب ولا للصغير مال به يفتى خانية وسيجيء في النفقة."

(كتاب الطلاق،‌‌باب الحضانة،ج3،ص559،ط:سعید)

فتاوی عالم گیری میں ہے:

"ونفقة الإناث ‌واجبة ‌مطلقا ‌على ‌الآباء ‌ما ‌لم ‌يتزوجن إذا لم يكن لهن مال كذا في الخلاصة."

(كتاب الطلاق،الباب السابع،الفصل الرابع في نفقة الأولاد،ج1،ص563،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100034

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں