بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد بچوں کی پرورش،مہر اور جہیز کاحکم


سوال

میرے شوہر نے مجھے تین طلاقیں دی ہیں،اور اس کا طلاق نامہ بھی مجھے واٹس اپ کیا ہے،اور فون پر بھی تین طلاقیں دی ہیں ،میرے تین بچے ہیں ایک بیٹی 12 سال کی،دو بیٹے ایک آٹھ سال کا اور دوسرا نو سال کا ان کا حکم بتائیں؟نیز شوہر نے مجھے مہر بھی نہیں دیا ہےاور جہیز کا سامان بھی واپس نہیں کیا ہے اس کا حکم بھی بتائیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائلہ کے شوہر کا   منسلکہ طلاق نامہ(جس میں تین طلاقیں صراحت کے ساتھ درج ہیں)  تیار کرواتے ہی سائلہ پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں اور سائلہ اپنے شوہرپر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے  نکاح ختم ہوگیاہے ،جس کے بعد رجوع یا تجدید نکاح کی گنجائش باقی  نہیں  رہی سائلہ  اپنی  عدت ( پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک)  گزار   کردوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے البتہ اگر سائلہ اپنی عدت گزارنے کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے اور دوسرے شوہر سے صحبت(جسمانی تعلق ) ہوجائے اس کے بعد وہ دوسرا شوہر سائلہ    کو طلاق دیدے یا اس  کا انتقال ہوجائے تو  اس کی عدت گزار کر اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے ۔

نیز لڑکےکی  سات سال کی عمر تک اور لڑکی کی نوسال کی عمر تک پرورش کاحق شرعاً ان کی والدہ کو حاصل ہوتاہے بشرطیکہ وہ عورت بچوں کے کسی غیرمحرم سے نکاح نہ کرے ،جب بچے مذکورہ عمرکو پہنچ جائیں تو پھر باپ کو لینے کاحق حاصل ہوتاہے لہذا صورت مسئولہ میں چوں کہ بچوں کی عمریں  مذکورہ مقدار کو پہنچ چکی ہیں لہذا بچوں  کے پرورش کا حق ان کے والد کو حاصل ہے،باقی شوہرنے اگر مہرکی ادائیگی نہیں کی ہے تو اس کا ادا کرنا شوہرکے ذمہ لازم ہے اور جہیز کا سامان بھی عورت کی ملکیت ہوتا ہےطلاق کی صورت میں اس کا واپس کرنا بھی لازم ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

" بأن کتب: أما بعد! فأنت طالق فلما کتب ھذا یقع الطلاق۔وتلزمها العدة من وقت الكتابة."

( کتاب الطلاق، قبیل باب الصریح، ج3 ص 246 ط :سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإن ‌كان ‌الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز۔"

(کتا ب الطلاق ج1 ص 473 ط:رشیدیہ)

فتاویٰ شامی میں ہے:

 (والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية.(وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى. (وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك) وبه يفتى لكثرة الفساد زيلعي. ۔۔(قوله: وبه يفتى) قال في البحر بعد نقل تصحيحه: والحاصل أن الفتوى على خلاف ظاهر الرواية.

( کتاب الطلاق باب الحضانۃ ج3،ص566 ط:سعید)

ہدایہ میں ہے:

"وإذا خلا الرجل بامرأۃ ولیس ہناک مانع من الوطئ ثم طلقہا فلہا ال المہر۔"

(کتاب النکاح، باب المہر، ج2ص:325ط: اشرفی دیوبند )

فتاوی شامی میں ہے:

"کل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها"

(کتاب النکاح ،باب المہر ج3،ص158ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100739

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں