بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد بچوں کا اختیار


سوال

 میں  اپنی بیوی کو چھ ماہ پہلے طلاق دے چکا ہوں مگر میری بیوی بچوں کے اختیارات کو لیکر  زبردستی میرے گھر پر رہ رہی ہیں، ان سے میرے (۳ )بچے ہیں،  ایک (۱۵) سال کی بچی،  (۱۱) سال کی بچی،  اور ایک   (۶) سال کا بچا ہے، براہ مہربانی ہماری رہنمائی کریں کہ بچے کس کے اختیارات میں کب تک رہیں گے؟   میں ان کی تعلیم وتربیت کی وجہ سے انہیں اپنے پاس  کراچی میں رکھنا چاہتا ہوں اور میری بیوی انہیں اپنے ساتھ گاؤں میرپورخاص لے جانے پر بضد ہیں، اور مجھ سے خرچے کا بھی  تقاضا کر رہی ہیں۔ رہنمائی فرماکر شکریہ کا موقع دیں۔

جواب

واضح رہے کہ وقوع طلاق کے بعد بیٹوں کی سات سال عمر تک اور بیٹی کی نوسال عمر تک  پرورش کا حق  ماں کوحاصل ہوتاہے،اور ان کا خرچہ باپ   کے ذمے لازم ہوتاہے ، اس کے بعد   باپ کو لینے  کا حق ہوتا  ہے، صورت مسئولہ میں سائل کی بڑی  بیٹی  جوکہ پندرہ سال کی اور  دوسری  بیٹی جوکہ گیارہ سال کی ہے،  دونوں کا حق دار   سائل ہی ہے؛ تاکہ  تعلیم اور تربیت کا انتظام کرسکے،البتہ  چھوٹا  بیٹا جس کی عمر  چھ سال   ہےاس کی  پرورش   کا حق سات سال  کی عمر تک  ماں  کو ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب  (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية(وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى   (وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك) وبه يفتى لكثرة الفساد، زيلعي."

             (باب الحضانۃ، ص/۵۶۶،۵۶۷، ج/۳، ط/سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع) ؛ لأنه إذا استغنى ‌يحتاج ‌إلى ‌تأديب والتخلق بآداب الرجال وأخلاقهم والأب أقدر على التأديب والتعنيف،و عن محمد أنها تدفع إلى الأب إذا بلغت حد الشهوة لتحقق الحاجة إلى الصيانة قال في النقاية: و هو المعتبر لفساد الزمان."

(باب الحضانة، ص/184، /4، ط/رشیدیہ) 

 فتاوی ہندیہ میں ہے:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لايشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة"

 (الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ١/ ٥٦٠، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100157

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں