بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد بچہ کی پرورش اور دودھ پلانے کی ذمہ داری


سوال

ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے اور وہ حاملہ ہے اب بچہ ہوتا ہے تو اس بچہ کا کیا ہوگا؟اور بچہ کو دودھ پلانا ماں کی ذمہ داری ہے یا نہیں؟

جواب

میاں بیوی کے درمیان طلاق  کے بعد بچہ کی پیدائش کی صورت میں بچہ کی پرورش کا حق اگر لڑکا ہو تو سات سال کی عمر تک،اور اگر لڑکی ہو تو نو سال کی عمر تک ماں کو حاصل ہے،بشرطیکہ وہ دوسری جگہ  بچہ کے کسی غیر محرم سےشادی نہ کرلے، پس اگر ماں نے  بچی کے غیر محرم سے شادی کرلی تو  ماں کا حق ساقط ہوجائے گا اور پرورش کا حق  بچہ کینانی،دادی ،خالاؤں ،پھوپھیوں  کو بالترتیب منتقل ہوجائے گا،البتہ بچہ کا نفقہ و دیگر اخراجات کی ذمہ داری  باپ  پر ہوگی اور حسبِ استطاعت خرچہ کرنا اس پر لازم ہوگا ، لڑکے کی عمر سات سال اور لڑکی کی عمر نو سال ہونے کے بعد باپ اپنے بچہ کو اپنی کفالت میں لے سکتا ہے۔

باقی دودھ پلانا ماں پر واجب اور ضروری نہیں ہے ، البتہ اگر کوئی اور دودھ پلانے والی عورت نہ ہو یا بچہ کسی اور کا دودھ نہ پیتا ہو نیز کسی اور طریقے سے بچے کی پرورش ممکن نہ ہوتو ایسی صورت میں ماں پر دودھ پلانا لازم ہو گا۔

واضح رہے کہ بچے کی صحیح خبر گیری ماں ہی کرسکتی ہے، اسی وجہ سے شرعاً اگر لڑکا ہوتو سات سال کی عمر تک اور لڑکی ہوتو نو سال کی عمر تک حق پرورش ماں کو حاصل رہتا ہے؛ اس وجہ سے بچہ پر رحم کرتے ہوئے ماں کو چاہئے کہ ولادت کے فوراً بعد والد کے حوالہ نہ کرے،بلکہ خود اس بچہ کی پرورش کرے۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین  میں ہے:

"(تثبت للأم)النسبية (ولو) كتابية، أو مجوسية أو (بعد الفرقة) (إلا أن تكون مرتدة) فحتى تسلم لأنها تحبس (أو فاجرة) فجورا يضيع الولد به كزنا وغناء وسرقة ونياحة كما في البحر والنهر بحثا .....(أو غير مأمونة).....ذكره في المجتبى بأن تخرج كل وقت وتترك الولد ضائعا (أو) تكون (أمة، أو أم ولد، أو مدبرة أو مكاتبة ولدت ذلك الولد قبل الكتابة) لاشتغالهن بخدمة المولى، لكن إن كان الولد رقيقا كن أحق به لأنه للمولى مجتبى (أو متزوجة بغير محرم) الصغير (أو أبت أن تربيه مجانا و) الحال أن (الأب معسر، والعمة تقبل ذلك) أي تربيته مجانا ولا تمنعه عن الأم قيل للأم: إما أن تمسكيه مجانا أو تدفعيه للعمة.....(ثم) أي بعد الأم بأن ماتت، أو لم تقبل أو أسقطت حقهاأو تزوجت بأجنبي (أم الأم) وإن علت عند عدم أهلية القربى (ثم أم الأب وإن علت) بالشرط المذكور وأما أم أبي الأم فتؤخر عن أم الأب بل عن الخالة أيضا بحر (ثم الأخت لأب وأم ثم لأم) لأن هذا الحق لقرابة الأم (ثم) الأخت (لأب) ثم بنت الأخت لأبوين ثم لأم ثم لأب (ثم الخالات كذلك) أي لأبوين، ثم لأم ثم لأب، ثم بنت الأخت لأب ثم بنات الأخ (ثم العمات كذلك) ثم خالة الأم كذلك، ثم خالة الأب كذلك ثم عمات الأمهات والآباء بهذا الترتيب؛ ثم العصبات بترتيب الإرث، فيقدم الأب ثم الجد ثم الأخ الشقيق، ثم لأب ثم بنوه كذلك، ثم العم ثم بنوه. وإذا اجتمعوا فالأورع ثم الأسن، اختيار.سوى فاسق ومعتوه وابن عم لمشتهاة وهو غير مأمون، ثم إذا لم يكن عصبة فلذوي الأرحام، فتدفع لأخ لأم ثم لابنه ثم للعم للأم ثم للخال لأبوين ثم لأم برهان وعيني بحر، فإن تساووا فأصلحهم ثم أورعهم ثم أكبرهم، ولا حق لولد عم وعمة وخال وخالة لعدم المحرمية.

(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا."

(کتاب الطلاق،باب الحضانۃ،ج3،ص555تا 565،ط؛سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله وليس على أمه) أي التي في نكاح الأب أو المطلقة ط (قوله إلا إذا تعينت) بأن لم يجد الأب من ترضعه أو كان الولد لا يأخذ ثدي غيرها، وهذا هو الأصح وعليه الفتوى خانية ومجتبى، وهو الأصوب فتح."

(کتاب الطلاق،باب النفقۃ،ج3،ص618،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101983

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں