بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد رجوع کرنے کے لیے اولاد کا ہونا ضروری ہے یا نہیں؟


سوال

آج سے 3 سال پہلے میرے شوہر نے طلاق کے پیپر تیار کروا کے میرے ابو کے گھر مجھے بھیجے، جو وہاں آئے ہی نہیں، نہ میں نے دیکھے، اس سے پہلے ہم ساتھ ہی میں تھے، وقتی ناراضگی میں میرے شوہر نے اپنے ماموں کے بولنے پر یہ پپر بھیجے تھے، جو کہ ہم گھر والوں کو نہیں ملے، میری 2 بیٹیاں ہیں، اسی ٹائم 2019 میں ہی میرے بہنوئی نے میرے اور میرے شوہر کے درمیان صلح کروائی، ہمارا یہ مسئلہ یہاں آ چکا ہے، اس فتوی کے مطابق ہی ہم ساتھ میں رہنے لگے، کیوں کہ ہمارا رجوع میرے 2 حیض آنے سے پہلے ہوگیا، میرا سوال یہ ہے کہ کیا اُس سب کے بعد ہماری اولاد ہونا ضروری ہے؟ کیوں کہ میرے شوہر نے مجھ سے رجوع تو کیا پر اس کے بعد سے سیفٹی use کرتاہے، مجھے یہ بات اچھی نہیں لگتی ہے کہ اللہ کی نعمت اولاد کو روکنا، جب کہ میرے شوہر ہر طرح کا خیال رکھتے ہیں دونوں بیٹیوں کا بھی، پر جب بھی میں چاہو کہ میں دوبارہ اُمید سے ہوجاؤں تو بولتے ہیں ما شا اللہ یہ ہیں نا، بیٹیوں کا خیال رکھو، بہت سے لوگ مجھے بولتے ہیں دوبارہ رجوع کرنے کی لیے عورت کے لیے اولاد ہونا ضروری ہے؟ جناب آپ میری راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں طلاقِ رجعی دینے کی صورت میں اگر عدت کے اندر قولاً یا عملاً رجوع کرلیا تھا، تو رجوع ہوگیا تھا، اور نکاح بھی بر قرار ہوگا، تاہم رجوع کرنے کے لیے  اولاد کا ہونا ضروری نہیں ہے، اس کے بغیر بھی رجوع ثابت ہوجاتا ہے۔

نوٹ: مذکورہ جواب اس صورت میں ہے کہ جب طلاق کے پیپر میں طلاقِ رجعی کے الفاظ تھے اور وہ بھی تین مرتبہ سے کم، لیکن اگر طلاق کے الفاظ تین دفعہ لکھے گئے تھے یا طلاق کے الفاظ کچھ اور تھے، تو پھرطلاق نامہ منسلک کرکے دوبارہ سوال ارسال کردیں اس کے مطابق ان شاءاللہ جواب دے دیا جائے گا ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة)... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.

(قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائما قبل انقضائها. اهـ."

(‌‌كتاب الطلاق، ‌‌باب الرجعة، ج: 3، ص: 397۔399، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506102373

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں