بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد بیوی کا شوہر کی چیزوں کو اپنے ساتھ لے جانے کا حکم


سوال

میری شادی دو سال پہلے ہوئی تھی، ہم نے جہیز نہیں لیا تھا، شادی کے ایک سال بعد میری بیوی نے بات بات پر لڑنا شروع کردیا اور اپنے گھر والوں کے سامنے طلاق کا بھی کہا، لیکن میں نے اس وقت طلاق نہیں دی، پھر اس نے دوبارہ ہنگامہ برپا کیااور چیخ چیخ کر طلاق کا کہا اورمجھ پر الزام بھی لگایا، تو روز روز کے جھگڑوں کی وجہ سے میں نے اس کو طلاق دے دی، اور حقِ مہر میں پہلے ہی دے چکا ہوں۔

اب وہ میری گولڈ (سونا) کی جیولری اور سامان میری غیر موجود گی میں  لے گئی جب کہ اس گولڈ کا میں نے اس کو مالک نہیں بنایاتھا، اور اس کی زکوۃ بھی میں ہی دیتا تھا، تو اب میں وہ گولڈ جیولری واپس لے سکتا ہوں؟ شریعت کا کیا حکم ہے؟ راہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ گولڈ (سونا) آپ نے اپنی بیوی کو مالک بناکر نہیں دیا تھا، صرف استعمال کے لیے دیا تھا اور اپنے اس زیور کی زکوۃ بھی سائل ہی دیتا ہے تو یہ سونا اور سائل کا دیگر ذاتی سامان سائل کو لوٹانا ضروری ہے، مطلقہ کے لیے وہ چیزیں لینا جائز نہیں ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا لاتظلموا ألا ‌لا ‌يحل ‌مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

(کتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج: 1، ص: 443، رقم: 2945، ط: بشري)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب الحدود، باب التعزير، مطلب في التعزير بأخذ المال، ج: 4، ص: 61، ط: سعید)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعنه) أي عن سمرة (عن النبي صلي الله عليه وسلم قال علي اليد ما أخذت) أي يجب علي اليد رد ما أخذته... قال الطيبي... ما أخذته اليد ضمان علي صاحبها والإسناد إلي اليد علي المبالغة لأنها هي المتصرفه (حتي تؤدي)... أي حتي تؤدِيه إلي مالكه فيجب رده في الغصب وإن لم يطلبه."

(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج: 6، ص: 137، ط: رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508100359

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں