بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد بچوں کی پرورش اور باپ سے ملنے کا حق


سوال

 طلاق کے بعد بچے کس کے پاس رہیں گے؟  اور اگر ماں شادی کر لے تو  بچی کو ماں غیر محرم کے گھر لے کر جا سکتی ہے؟ اور  باپ سے ملاقات کا شرعی طریقہ کیا ہے؟ برائے مہربانی سٹیمپ کے ساتھ فتوی بھیج دیں!

جواب

واضح رہے کہ جب تک بچوں کی عمر سات سال اور بچیوں کی عمر نو سال نہیں ہوجاتی ماں کو ان کی پرورش کا حق حاصل ہے، بشرطیکہ وہ  دوسری  جگہ  بچوں کے غیر محرم سے شادی نہ کرلے، پس اگر اس نے شادی کرلی تو ماں کا حق ساقط ہوجائے گا ،  نیز اگر ماں فسق و فجور  یا حرام کاری کے راستہ پر ہو تو اس صورت میں بھی بچوں کی پروش کا حق ساقط ہو جائے گا اور دونوں صورتوں میں بچوں کی نانی کو مقررہ عمر مکمل ہونے تک اپنے پاس رکھنے کا حق ہوگا، البتہ اگر نانی وفات پاگئی ہوں تو بچے دادی کی پرورش میں رہیں گے ، لڑکوں کی عمر جب سات سال اور لڑکی کی عمر نو سال ہوجائے گی تو باپ کو اپنی اولاد لینے کا شرعی حق ہوگا ۔نیزباپ اپنے بچے سے جب چاہے مل سکتا ہے، اس کو اپنے بچےسے نہ ملنے دینا ظلم ہے۔

مذکورہ فتویٰ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کی آفیشل ویب سائٹ پر پبلش کیا جارہاہے، ویب سائٹ کے پیج سے جامعہ کے لوگو سمیت اس کا پرنٹ اور ویب سائٹ پر اس فتویٰ نمبر کا موجود ہونا اس کی تصدیق ہے، تاہم اگر آپ جامعہ ہذا کے دار الافتاء کی مہر کے ساتھ اپنا جواب چاہتے ہوں تو  دستی یا نیچے دیے گئے ای میل ایڈرس پر اپنا سوال بھیج کر دار الافتاء کی مہر کے ساتھ جواب حاصل کر سکتے ہیں:

[email protected]

وفي الهداية، (2/436):

"(وإذا أرادت المطلقة أن تخرج بولدها من المصر فليس لها ذلك) لما فيه من الإضرار بالأب."

وفي الفتاوى الهندية (1/ 541):

"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدةً أو فاجرةً غير مأمونة، كذا في الكافي ... وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجةً بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة ... والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني، وقدر بسبع سنين، وقال القدوري: حتى يأكل وحده، ويشرب وحده، ويستنجي وحده. وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين، والفتوى على الأول. والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض. وفي نوادر هشام عن محمد - رحمه الله تعالى-: إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق، وهذا صحيح. هكذا في التبيين... وإذا وجب الانتزاع من النساء أو لم يكن للصبي امرأة من أهله يدفع إلى العصبة فيقدم الأب، ثم أبو الأب، وإن علا". 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200155

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں