بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق کے بعد عورت عدت کہاں گزارے گی؟


سوال

1-میرے سابقہ دماد نے تقریباً 20 رمضان کو میری بیٹی کو طلاق دی ہے ،تین طلاق دےچکا ہے، اور طلاق بھی صریح دی ہے،طلاق دینے کے بعد تقریباً ایک ہفتہ میری بیٹی کو اپنے پاس ہی رکھا، کیا شرعاً طلاق کے بعد اپنے پاس رکھنا صحیح ہے ؟

2- تین طلاق کے بعد عورت عدت کہاں گزارے گی اپنے میکہ میں یا شوہر کے گھر میں؟

3- تین طلاق دینے  کے بعداس نے نہا دھوکر میری بیٹی کے سامنے قرآن پر ہاتھ رکھ کر یہ قسم اٹھائی کہ میں تم سے دوبارہ نکاح کروں گا  شرعاً اس قسم کا کیا حکم ہے؟

جواب

1-واضح رہے کہ   اگر تین طلاقیں ہوگئیں ہیں تو تین طلاقوں کے بعد   مرد و عورت  کا ایک ساتھ رہنا شرعا جائز نہیں ہے،  لہذا صورت مسئولہ میں آپ کے داماد نے آپ کی بیٹی کو  تین طلاقیں دےدی تھیں تو اس کے بعد فوری علیحدہ  ہو جانا ضروری تھا ، تین طلاق کے بعداگر دونوں اکٹھے میاِں بیوی کی طرح رہے تو   جتنے عرصہ ساتھ رہے اس پردونوں صدق دل سے  توبہ و استغفار کریں۔

2-طلاق کے وقت  شوہر کے جس گھر میں عورت کی رہائش ہو  اسی گھر میں مطلقہ کے لیے  عدت گزارنا لازم ہے، کسی شدید ضرورت کے بغیر اس سے نکلنا جائز نہیں ہے، البتہ تین طلاق کے بعد اس گھر میں شوہر سے الگ شرعی پردہ کے ساتھ  اجنبیہ کی طرح رہنا ضروری ہے۔

3-سائل کے سابقہ داماد نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر اپنی سابقہ  بیوی سے کہا تھا کہ میں تم سے دوبارہ نکاح کروں گا، یہ کہنے کی وجہ  سے سائل کی بیٹی کو اس شخص سے دوبارہ نکاح کرنا لازم نہیں اور تین طلاق کے بعد تجدید نکاح کی بھی گنجائش نہیں ہے  ،اگر اس شخص نے  قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کے الفاظ بھی ادا کیے تھے تو   اگر عورت اپنی عدت پوری کر کے کسی اور کے ساتھ اپنی مرضی سے شادی کرے پھر اگر وہ ازدواجی تعلقات کے بعد اپنی مرضی سے طلاق  دے دے یا دونوں خلع کریں  یا دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے تو دوسری عدت کے بعد ہی باہمی  رضامندی سے باہم نکاح کریں ، اس صورت پر  قسم نہیں ٹوٹے گی،لیکن اگر ایسی صورت نہ بن پائے اور  اگر  سائل کی بیٹی سے اس کا  دوبارہ نکاح نہ ہوسکے تو  دونوں (سائل کی بیٹی اور اس کے سابق شوہر)  میں سے کسی ایک کی وفات  کے قریب وہ حانث ہوجائے گا اور اس پر قسم کا کفارہ دینا لازم ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولهما أن يسكنا بعد الثلاث في بيت واحد إذا لم يلتقيا التقاء الأزواج، ولم يكن فيه خوف فتنة انتهى.وسئل شيخ الإسلام عن زوجين افترقا ولكل منهما ستون سنة وبينهما أولاد تتعذر عليهما مفارقتهم فيسكنان في بيتهم ولا يجتمعان في فراش ولا يلتقيان التقاء الأزواج هل لهما ذلك؟ قال: نعم، وأقره المصنف،(قوله: وسئل شيخ الإسلام) حيث أطلقوه ينصرف إلى بكر المشهور بخواهر زاده، وكأنه أراد بنقل هذا تخصيص ما نقله عن المجتبى بما إذا كانت السكنى معها لحاجة، كوجود أولاد يخشى ضياعهم لو سكنوا معه، أو معها، أو كونهما كبيرين لا يجد هو من يعوله ولا هي من يشتري لها، أو نحو ذلك."

(كتاب الطلاق، باب  العدۃ، فصل في الحداد، 3 /538، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

'( ولابد من سترة بينهما في البائن )لئلا يختلى بالأجنبية ، ومفاده أن الحائل يمنع الخلوة المحرمة (وإن ضاق المنزل عليهما أو كان الزوج فاسقا فخر وجه أولى  ) لأن مكثها واجب لا مكثه.'

(كتاب الطلاق،باب العدۃ،فصل فی الحداد،ج:3،ص:537،ط:سعید)

فتوی شامی میں ہے:

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه"

(كتاب الطلاق،باب العدۃ،فصل فی الحداد،ج:3،ص:536،ط:سعید)

و فيه أيضاً:

'و كفارته تحرير رقبة أو إطعام عشرة مساكين أو كسوتهم. وإن عجز عنها ) كلها ( وقت الأداء صام ثلاثة أيام ولاء). (قوله: عشرة مساكين) أى تحقيقاً أو تقديراً ، حتى لو أعطى مسكينا واحدا فيعشرة أيام كل يوم نصف صاع يجوز.'

(کتاب الأيمان، مطلب كفارة اليمين ، ج:3، ص:725، 726 ط: سعید)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101348

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں