بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد حق حضانت کا حکم


سوال

میاں بیوی میں طلاق ہو جانے کے بعد کیا عورت اور اس کے گھر کے افراد بچوں کو زبردستی اپنے پاس رکھ سکتے ہیں؟اور کیابچوں سے بات کرنے،ملاقات کرنے پر پابندیاں و شرائط لگا سکتے ہیں؟ اور جو لوگ بچوں کے دل میں کسی بھی طرح والد کے لئے نفرت ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ،ان کے لئےکیا حکم ہے؟ بچوں کی ان کے والدہ کے ساتھ ہونےصورت میں بچوں کےنان نفقہ جو والد کے ذمہ ہے، اس کی حد و مقدار کیا ہو گی؟

جواب

واضح رہے کہ میاں بیوی میں علیحدگی صورت میں بچوں کی پرورش،اگر لڑکا ہو تو سات سال کی عمر تک ،اور لڑکی ہو تو نو سال کی عمر تک ،ان کی والدہ کی ذمہ داری ہے،بشرطیکہ اس دوران والدہ کسی ایسے شخص سے نکاح نہ کرے جو ان بچوں کے لیے نا محرم ہو ،  اگر والدہ نے شادی کر لی تو پھر یہ ذمہ داری بچوں کی نانی کے پاس آجائے گی،مذکورہ مدت  مکمل ہونے کے بعد والد كو لینے کا حق حاصل ہوگا تاکہ ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرسکے ،تاہم بچے جس کی بھی پرورش میں ہو ں،وہ دوسرے ملاقات کرانے سے نہیں روک سکتا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں والدہ کا بچوں کو والد سے نہ ملوانا جائز نہیں،یہ والد کا شرعی و قانونی حق ہے،اور  والدہ اور اس کے خاندان والوں کا بچوں کے دلوں میں اپنے باپ کے خلاف نفرت پیدا کرنا  شرعاً  قبیح عمل ہے،  اگر پھر بھی ملاقات نہ کرائیں تو والد کو قانونی چارہ جوئی کا حق ہے، نیز بچوں کا خرچہ ان کی ضروریات کے اعتبار سےوالد کی استطاعت کے مطابق ہوگا،والد کی استطاعت اور بچوں کی ضروریات سے زائد کا مطالبہ درست نہیں،اس میں بچوں کا کھانا ،لباس اور تعلیمی اخرجات شامل ہو ں گے،اسی طرح بوقت ضرورت علاج و معالجہ کےا خراجات بھی والد پر ہوں گے۔

بدائع الصنائع میں ہے: 

" وأما بيان من له الحضانة، فالحضانة تكون للنساء في وقت، وتكون للرجال في وقت، والأصل فيها النساء؛ لأنهنّ أشفق وأرفق وأهدى إلى تربية الصغار، ثم تصرف إلى الرجال؛ لأنهم على الحماية والصيانة وإقامة مصالح الصغار أقدر."

(كتاب الحضانة، وأما بيان من له الحضانة، ج:8 ص:234 ط: دار الکتب العلمیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدةً أو فاجرةً غير مأمونة، كذا في الكافي. سواء لحقت المرتدة بدار الحرب أم لا، فإن تابت فهي أحق به، كذا في البحر الرائق. وكذا لو كانت سارقةً أو مغنيةً أو نائحةً فلا حق لها، هكذا في النهر الفائق."

(کتاب الطلاق، الباب السادس عشر في الحضانة، ج:1 ص:541 ط: رشیدیة)

و فیہ ایضاً:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة."

 (كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج:1 ص:560 ط: رشیدیة)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100473

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں