بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد گھر کے سامان کی ملکیت کا حکم


سوال

میری شادی کو سات سال ہوچکے ہیں اور تقریباً تین ماہ سے میرے اور میرے شوہر کے درمیان علیحدگی  ہے ،ابھی تک طلاق نہیں ہوئی طلاق کی بات چل رہی ہے ،اب سوال یہ ہے کہ طلاق ہو جانے کی صورت میں بری کا سامان یعنی  کپڑے اور زیور کس کی ملکیت ہو گا ؟ اسی طرح ایک انگوٹھی جو منہ دکھائی پر ملی اور ایک انگوٹھی اور چین بعد میں سالگرہ پر تحفتاًملی جوکہ ان کے پاس ہے یہ کس کی ملکیت ہے  ، نیز جہیز کا سامان کس کی ملکیت ہوگا ؟ اسی طرح شاد ی کے موقع پر لڑکے کو ایک لاکھ ستر ہزار روپے اور انگوٹھی،  موبائل اور گھڑی دی وہ کس کی ملکیت  ہوگا؟

میرے بچوں کی پیدائش پر   میری والدہ  کا ایک لاکھ روپے خرچہ ہوا ،یہ واپس ملے گا یا نہیں ؟اسی طرح میرے والد صاحب کی وراثت میں میرا جو حصہ بنتا تھا، یعنی آٹھ لاکھ روپے وہ حصہ شادی کے ایک سال بعد انہوں نے مجھ سے مانگ کے  لے لیا اور میرے شوہر کا جوائنٹ اکاؤنٹ تھا ، وہ پیسے اس میں انہوں نے رکھ دیے  اور پھر مجھے بتائے بغیر اس میں سے وہ پیسے نکال لیے پھر اس کے بعد کئی دفعہ  میں نے ان سے  ان پیسوں کا مطالبہ کیا لیکن وہ پیسے  مجھے نہیں ملے  ،اب وہ پیسے ان کو مجھ پر دینا لازم   ہیں یا نہیں  اسی طرح میری ذاتی پیسوں سے خریدا ہوا کڑا اور شادی کے بعد جو کپڑے اور دیگر استعمال کا سامان جو شوہر کے پیسوں سے لیا وہ کس کی ملکیت  ہوگا ؟

جواب

(الف)واضح رہے کہ جہیز   میں جو کچھ بیوی لے کر آتی ہے  وہ بیوی کی ہی ملکیت ہوتا ہے ، جو چیزیں بطورِ تحفہ میاں بیوی یا ان دونوں کے رشتہ دار دیتے ہیں ان پر اسی کی ملکیت ہوتی ہے جس کو تحفۃً دیا گیا ہو، پس گھریلو سامان کی تقسیم اسی بنیاد پر ہوگی۔ اور  جو  زیور لڑکے والوں کی طرف سے ملتاہے،اگر اس کے دیتے وقت  سسرال والوں نے اس بات  کی صراحت کی تھی کہ یہ  بطورِ عاریت یعنی صرف  استعمال کرنے کے لیے ہیں  تو پھر یہ  زیورات اور سامان لڑکے والوں کی ملکیت ہوں گے، اور  اگر سسرال  والوں  نے ہبہ ، گفٹ اور  مالک بناکر دینے کی صراحت کردی تھی تو  پھر ان زیورات اور  سامان   کی  مالک لڑکی ہوگی، اگر اس کے دیتے  وقت کوئی صراحت نہ کی ہو تو  اس میں شوہر کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا، اگر ان کے ہاں بطورِ ملکیت دینے کا رواج ہو تو  وہ بیوی کی ملکیت شمار  ہوگا، اگر عاریتًا  دینے کا رواج ہوتو بیوی کی ملکیت نہیں ہوگا   اور  اگر لڑکے والوں کے ہاں کوئی عرف نہ ہو تو عرفِ عام کا اعتبار کرتے ہوئے یہ زیور اور سامان وغیرہ گفٹ سمجھا جائے گا اور لڑکی کی ملکیت ہوگا۔

مذکورہ قاعدہ کی رو سے جو سامان اور زیورات وغیرہ لڑکی کی ملکیت ہوں تو طلاق کے بعد لڑکی سامان اور زیورات وغیرہ کو لے جاسکتی ہے، لیکن جو سامان اور زیورات وغیرہ لڑکی ملکیت نہ ہوں وہ لڑکی اپنے ساتھ لے کر نہیں جاسکتی ہے۔

(ب)صورت مسئولہ میں سائلہ کی ذاتی رقم سے خریدا ہوا کڑا   اسی ہی  کی ملکیت ہے ۔

(ج)سائلہ کے بیٹے کی پیدائش پر سائلہ کی والدہ نے  جو خرچہ کیا ہے   وہ تبرع اور احسان ہے ان پیسوں کا لوٹانا ضروری نہیں ۔

 (د)باقی سائلہ کے شوہر نے سائلہ سے قرض کی مد   میں جو پیسے لیے تھے ،ان پیسوں کا لوٹانا سائلہ کے شوہر پر لازم ہے ۔

 (ہ)  جو کپڑے اور دیگر سامان   شوہر نے مالکانہ طور پر بیوی کو دیے تھے تو بیوی اس کی مالک ہوگئی اور ااگر ستعمال کے لیے دیے تھے تو شوہر ہی اس کا مالک ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها".

(3/158، باب المہر، ط؛سعید)     

 وفیه أیضاً:

"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً".

(3/ 153،  کتاب النکاح، باب المهر، ط: سعید)

وفیه أیضاً:

"والمعتمد البناء على العرف كما علمت".

(3/157، باب المہر، ط؛ سعید)        

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

"وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها، منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية".

(1 / 327، الفصل السادس عشر في جهاز البنت، ط: رشیدیہ)

العقود الدریہ  فی تنقیح  الفتاوی  الحامدیہ   میں ہے :

‌المتبرع لا يرجع بما تبرع به على غيره

ج:2،ص:226،ط: دار المعرفہ

فتاوي شامي ميں هے :

(هو) لغة: ما تعطيه لتتقاضاه، وشرعا: ما تعطيه من مثلي لتتقاضاه۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100136

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں