بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد بچی کی عمر 13 سال ہونے کے باوجود والد کے حوالہ نہ کرنے کا حکم


سوال

ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے اور اس کی ایک 13 سال کی بیٹی بھی ہے جو پیدائش کے وقت سے لے کر اب تک اس کی سابقہ بیوی کے پاس ہی ہے۔ ان 13 سالوں کے دوران اس شخص کو اس کی بیٹی سے نہیں ملوایا جاتا اور ہر بار اس کے باپ کی  ملنے کی خواہش کو یہ کہہ کر منع کر دیا جاتا ہے کہ اس کی بیٹی اس سے نہیں ملنا چاہتی  ماسوائے ایک دو بار کے،  وہ بھی دنوں یا گھنٹوں  کے لیے نہیں،  بلکہ محض چند منٹوں  کے لیے۔  (غالب گمان ہے کہ اس پورے عرصے میں بچی کو اس کے باپ سے متعلق یک طرفہ منفی باتیں ہی بتائی جاتی ہیں،  یہی وجہ ہے کہ اس کی بیٹی 13 سال کی عمر میں پہنچنے اور بہت حد تک سمجھ دار ہونے کے باوجود آج تک اپنے باپ کو لاپرواہ اور غیر ذمہ دار سمجھتے ہوئے  ملنے سے منکر ہے)۔

 واضح  رہے  ان  13 سالوں کے دوران وہ شخص اپنی بیٹی کے نان نفقہ سے متعلق بھی اپنی مالی حیثیت کے مطابق باقاعدگی سے پیسے دینے کی  کوشش کرتا رہتا ہے،  کبھی کیش کی صورت میں اور کبھی منی آرڈر کی صورت میں  جو کبھی نہیں  لیے جاتے اور ہمیشہ واپس لوٹا دیے جاتے  ہیں اور موقف اپنایا جاتا ہے کہ انھیں یعنی اس کی بیٹی کو اس کے پیسوں کی ضرورت نہیں۔

اب وہ شخص اس موجودہ صورتِ حال میں اس سارے معاملے پر نا صرف پریشان ہے،  بلکہ شریعت کا موقف جاننا چاہتا ہے کہ شریعت کی رو سے اس کی سابقہ بیوی و سسرال کا بیٹی کو اس کے باپ سے نہ  ملوانے اور باپ سے بدظن کرنے کا عمل کیسا ہے؟ یہ محض ایک غلط عمل ہی ہے یا وہ اس ضمن میں گناہ گار بھی ہوئے ہیں؟ اور اگر گناہ گار ہوئے ہیں تو دنیا و آخرت میں اس گناہ سے بابت کوئی شرعی حوالہ یا وعید؟ شریعت کی روشنی میں جواب دےکر راہ نمائی فرمائیں!

جواب

واضح  رہے  کہ زوجین کے  درمیان  جدائی کی صورت میں اولاد کی پرورش کے بارے میں شریعتِ  مطہرہ کا حکم یہ ہے کہ  9 سال  کی  عمر تک بچی ماں کے پاس رہے گی اور  9  سال پورے ہوتے ہی بچی والد کے حوالہ کردی جائے گی،  9  سال پورے ہونے پر بچی کو اپنی پرورش میں لینا والد کا شرعی حق ہے، لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں بچی کی ماں اور  ننھیال والوں کا بچی کی عمر  13  سال ہونے کے باوجود بچی والد کے حوالہ نہ کرنا سراسر ناجائز عمل ہے، بچی کی والدہ اور ننھیال والوں کا بچی کو والد کے حوالہ نہ کرنا اور والد سے نہ ملنے دینا بچی کے والد کی حق تلفی اور نا انصافی پر مشتمل ہونے کی وجہ سے سخت گناہ کا باعث ہے اور اگر بچی کی والدہ اور ننھیال والوں نے واقعتًا بچی کو اپنے والد سے ناحق بدظن کیا ہو تو یہ جھوٹی الزام تراشی اور بہتان بازی ہونے کی وجہ سے مزید  گناہ اور عذاب کا موجب  ہوگا، لہٰذا بچی کی والدہ اور ننھیال پر لازم ہے کہ فی الفور بچی کو اس کے والد کے حوالہ کردیں اور بچی کے ذہن میں والد سے متعلق جو بدگمانی ڈالی گئی ہو اس کو بھی صاف کریں،  ورنہ قیامت کے دن  ان سب باتوں کا حساب دینا پڑے گا۔ اگر بچی کی والدہ اور ننھیال والے بچی کو والد کے حوالہ کرنے پر راضی نہ ہوں تو والد عدالت کے ذریعہ بھی ا پنی بچی کو واپس لے سکتے ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرًا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم، بحر بحثاً.

وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع، وبه يفتى."

(3/566، باب الحضانة، ط:سعید)

وفیه أیضاً:

"حاصل ما ذكره في الولد إذا بلغ أنه إما أن يكون بكرًا مسنةً أو ثيبًا مأمونةً، أو غلامًا كذلك فله الخيار وإما أن يكون بكرًا شابةً، أو يكون ثيبًا، أو غلامًا غير مأمونين فلا خيار لهم بل يضمهم الأب إليه."

(3/569،  باب الحضانة، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200525

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں