ایک دن جب رات کے وقت میں گھر آیا،تو بیوی لڑائی جھگڑا کرنے لگی اوروہ طلا ق مانگنے لگی تو اس کے جواب میں میں نے دومرتبہ صرف یہ الفاظ کہے”درکم درلہ طلاق،؟درکم درلہ طلاق ؟“(دے دوں تجھے طلاق؟) اس کے علاوہ کوئی الفاظ نہیں بولے ہیں، جبکہ بیوی کہتی ہے کہ میرے شوہر نے مجھے تین ہفتے قبل یہ الفاظ کہے”زہ تالہ طلاق راکوم،زہ تالہ طلاق راکوم“(میں تمہیں طلاق دے رہاہوں) اور گذشتہ بدھ کی رات بھی یہی الفاط ”زہ تالہ طلاق راکوم“(میں تمہیں طلاق دے رہاہوں) دوبارہ کہے، کیا اس سے طلاق ہوگئی یانہیں؟
صورتِ مسئولہ میں میاں بیوی کے بیان میں تضاد ہے، شوہر جن الفاظ کا کہہ رہا ہے ( ”درکم درلہ طلاق،؟درکم درلہ طلاق ؟“(دے دوں تجھے طلاق؟)تو شوہر کے الفاظ در حقیقت طلاق کے بارے میں بیوی سے استفہام یعنی سوال ہےاور شرعاً طلاق کے سوال سے طلاق واقع نہیں ہوتی اور بیوی جن الفاظ کا دعوی کررہی ہےکہ ”زہ تالہ طلاق راکوم،زہ تالہ طلاق راکوم“(میں تمہیں طلاق دے رہاہوں) تو غصہ اور جھگڑے کے دوران یہ الفاظ انشاء طلاق یعنی وقوع طلاق پر دلالت کرتے ہیں،اسی طرح زیر نظر مسئلہ میں بیوی کا دعوی تین طلاقوں کا ہے ، گویااس صورت میں بیوی طلاق کی مدعیہ ہے اور شوہر اس کا منکر ہے۔
تو ایسے اختلاف کی صورت میں دونوں (میاں، بیوی) پر لازم ہے کہ کسی مستند عالمِ دین یا مفتی کے پاس جاکر انہیں اپنے اس مسئلے کا فیصل/ ثالث مقرر کریں، پھر ان سے اپنے درمیان شرعی فیصلہ کرائیں،جو شرعی فیصلہ ہوجائے اس کے مطابق عمل کریں۔
فتاوی شامی میں ہے:
«ثم استثناء الثلاثة يفيد صحة التحكيم في كل المجتهدات كحكمه بكون الكنايات رواجع وفسخ اليمين المضافة إلى الملك وغير ذلك.
(قوله ثم استثناء الثلاثة) أي الحد والقود والدية على العاقلة وكان الأولى ذكر هذا عقبها.(قوله في كل المجتهدات) أي المسائل التي يسوغ فيها الاجتهاد من حقوق العباد كالطلاق والعتاق والكتابة والكفالة والشفعة والنفقة والديون والبيوع بخلاف ما خالف كتابا أو سنة أو إجماعا."
(كتاب القضاء، باب التحكيم، ج: 5، ص: 430، ط: دار الفكر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144604102354
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن