بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کا میسج لکھا اور زبان سے ان شاء اللہ کہا تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی


سوال

 میاں بیوی کے درمیان میسج پرہونے والی مندرجہ ذیل گفتگو مذاکرہ طلاق ہے یا نہیں اور اس سے طلاق یا طلاقیں۔ واقع ہوئی یا نہیں؟

شوہر۔۔ کیا بچےمجھے دو گی؟ (سخط نالاں ھو کر الگ رہنے کی نیت سے کہا)

بیوی۔ ۔مطلب فیصلہ کرچکے ہیں آپ

شوہرنے کہا۔۔ میں نہیں آپ کے والد صاحب کر چکے۔اور تم دونوں کی خوشی میں اس بار میں ساتھ ہوں۔دل میں آئے طلاق کے وسوسےیاارادے کو رد کر کے لکھا۔

(وضاحت دونوں کی خوشی اس لیے کہا کہ ماضی بعیدمیں بیوی طلاق مانگ چکی تھی۔اور سسر نے شوہر کے بھائی سے کہا تھا۔ میری بیٹی گاؤں نہیں جائے گی ۔ ان دونوں کا فیصلہ کر لیں۔ ہم آپ کے خاندان کے لائق نہیں ہیں شاید۔)

ان جملوں سے ان کی مراد معلوم نہیں لیکن شوہر کے نزدیک ان الفاظ سےان کی مراد طلاق تھی۔لیکن شوہر نے طلاق کی نیت نہیں کی۔اور بعد میں اہلیہ نے بتایا کہ فیصلہ سے مراد مسئلہ کا حل ہے۔)

میں نہیں والد صاحب والے جواب کے بعد بیوی نے کہا۔۔۔ میں نے آپکا پوچھا ہے۔

شوہر۔۔۔۔ظاہر ہے اب کب تک زبر دستی مسلط رہ سکتا ہوں ؟(نیت طلاق نہیں)

بیوی۔۔تو یہی نا کہ فیصلہ کرلیا ہے آپ نے

شوہر۔۔ ہاں ۔ تمہاری اور والدکی خواہش ہر بار رد کرنا مناسب نہیں۔(یہ میسج لکھنے سے پہلے اور بھیجتے وقت زبان سے کہا کہ ، فیصلہ سے،،میری طلاق کی نیت نہیں اور اگر اس کی ہے تو ان شاءاللہ کیساتھ بھیجتا ہوں۔ سینڈ بٹن دباتے وقت کہتا رہا ان شاءاللہ۔)

اس کے بعد بیوی کا وائس میسج آیا والدین کا منشور نہیں کہ ہم میں علیحدگی ہو۔ باقی آپ مجھ سے تھک گئے ہیں تو میں اپنا بوجھ آپ پر نہیں ڈالتی۔

شوہر۔۔۔ہاں تھک گیا ہوں بہت۔ فیصلے کا اور صریح الفاظ میں طلاق کا مطالبہ سن سن کر۔ ظاہر ہے کب تک انسان برداشت کرے۔

جواب

سوال میں ذکر کردہ میاں بیوی کی گفتگو مذاکرہ طلاق کے حکم میں ہے،اور "فیصلے" کا لفظ طلاق کے الفاظ کنائی میں سے ہے،لیکن شوہر کا بیوی کے جواب میں  ہاں  لکھتے وقت  صراحت کے ساتھ طلاق کی نیت کی نفی کرنے کی وجہ سے  شرعا کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وشرط الاستثناء أن يتكلم بالحروف سواء كان ‌مسموعا أو لم يكن عند الشيخ الإمام الفقيه أبي الحسن الكرخي وكان الشيخ الإمام الفقيه أبو جعفر - رحمه الله تعالى - يقول: إنه لا بد وأن يسمع نفسه وبه كان يفتي الشيخ الإمام الجليل أبو بكر محمد بن الفضل كذا في المحيط والصحيح ما ذكره الفقيه أبو جعفر كذا في البدائع ويصح استثناء الأصم كذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب الطلاق،الباب الرابع فی الطلاق بالشرط،ج1ص460،ط؛دار الفکر)

الدر المختارو حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"فلو تلفظ بالطلاق وكتب الاستثناء موصولا أو عكس أو أزال الاستثناء بعد الكتابة لم يقع عمادية.

قوله أو عكس) أي كتب الطلاق وتلفظ بالاستثناء (قوله أو أزال الاستثناء إلخ) أشار به إلى قسم رابع، وهو ما إذا كتبهما معا فإنه يصح أيضا وإن أزال الاستثناء بعد الكتابة فافهم."

(کتاب الطلاق،باب التعلیق،ج3،ص368،ط؛سعید)

فتاوی مفتی محمود میں ہے:

"الفاظ فیصلہ تین بار اور چھوڑی بھی تین بار کہنے سے ایک طلاق بائن واقع ہوگی

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔صورت مسئولہ میں میں ایک طلاق بائن واقع ہوگئی ہے۔تجدید نکاح کرکے آپس میں آباد ہوسکتے ہیں۔کیونکہ فیصلہ کا لفظ کنایات طلاق کے قریب ہے اور لوگوں کے استفسار پر اس شخص کا جواب میں چھوڑی کہنا قرینہ ارادہ طلاق ہے۔اس لیے ایک طلاق لفظ فیصلہ سے واقع ہوگئی اور دوسرے دو فیصلہ کے لفظوں سے طلاق واقع نہ ہوگی۔......"

(کتاب الطلاق،ج6،ص400،ط؛جمعیۃ پبلیکیشنز)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144407100034

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں