ایک شخص نے بیوی کو ٹارچر کرنے کے لیے کسی مولوی صاحب کے کہنے پر طلاق کے تین میسج کیے اور اس کے ساتھ ساتھ ان شاء اللہ کے الفاظ منہ سے بولے، لکھے نہیں تو کیا اس طرح کرنے سے طلاقیں واقع ہو جائیں گی یا نہیں؟
واضح رہے کہ کسی کو بھی کو ذہنی ٹارچر کرنا (ذہنی اذیت دینا) جائز نہیں ہے، بیوی کو ڈرانے کے لیے اسے طلاق کے الفاظ کہنا اور اس کے بعد ان شاء اللہ کہنا کسی صورت مناسب طرزِ عمل نہیں ہے، اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے، باقی صورتِ مسئولہ میں اگر طلاق لکھنے کے متصل بعد زبانی ان شاء اللہ کہہ دیا ہو تو طلاق واقع نہیں ہوئی۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 374):
"(قوله: وعلى ما مرّ عن العمادية) أي من قوله: فلو تلفظ بالطلاق و كتب الاستثناء موصولًا أو عكس أو أزال الاستثناء بعد الكتابة لم يقع."
الفتاوى الهندية (1 / 378):
"و إذا كتب الطلاق واستثنى بلسانه أو طلق بلسانه واستثنى بالكتابة هل يصح؟ لا رواية لهذه المسألة، وينبغي أن يصح، كذا في الظهيرية."
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144204200401
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن