بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کا مسئلہ پڑھتے وقت طلاق کے الفاظ کی ادائیگی کا حکم


سوال

زید نے دارالافتاء بنوری ٹاؤن کے ویب سائٹ پر طلاق کا ایک فتویٰ پڑھا ،دارالافتاء والو ں نے سوال کا عنوان ان الفاظ کے ساتھ لکھا تھا (شدید غصے میں طلاق دی) زید نے آج سے تقریباً تین چار ماہ پہلے پڑھا تھا او ر زیدکو 3یا4ماہ بعد شک ہوگیا کہ کہیں اسکے پڑھنے میں تمہارا طلاق کی نیت تو نہیں تھی،  اب اس شک اور وسوسہ  نے بہت پریشان کیاہےمجھے  ،ایسی کوئی بات یاد نہیں طلاق کی نیت کا ،اس وقت زید نے مفتی سے اس کے متعلق پوچھا اور اس نے کہا دوسرے کے طلاق کے الفاظ پڑھنے سے طلاق واقع نہیں ،آپ مہربانی کرکے جواب دیں۔

جواب

 واضح رہے کہ مسئلہ پڑھنے کی صورت میں جو طلاق کے الفاظ بولے یا لکھے جاتے ہیں وہ بطورِ حکایت (کسی کی گفتگو نقل کرنا) کے ہوتے ہیں ، ان سے طلاق دینا مقصود نہیں ہوتا اور شرعاً کسی دوسرے کے طلاق کے الفاظ نقل کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ؛لہذا آپ شک میں مبتلا نہ ہوں۔

البحرالرائق میں ہے :

"لو ‌كرر ‌مسائل ‌الطلاق بحضرة زوجته ويقول أنت طالق ولا ينوي لا تطلق، وفي متعلم يكتب ناقلا من كتاب رجل قال ثم يقف ويكتب: امرأتي طالق وكلما كتب قرن الكتابة باللفظ بقصد الحكاية لا يقع عليه."

(کتاب الطلاق،باب الفاظ الطلاق،ج:۳،ص:۲۷۸،دارالکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100018

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں