بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق كا خيال آنے طلاق كا حكم


سوال

 میں ایک پشتون قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں، حال ہی میں میری منگنی ہوچکی ہے، حق ِمہر نولاکھ روپے  ہے ،میں سرکاری ملازم ہوں ،ہر ماہ تنخواہ والد صاحب کو دیتا ہوں، ایک دن ذہن  میں ایک سوچ آئی  کہ والد صاحب کو بتاؤں گا کہ میں اس وقت تک آپ کو تنخواہ نہیں دوں گا، جب تک میں حقِ مہر ادا نہ کروں ، مجھے ایسا لگا کہ مجھ سے سوچ میں طلاق کا لفظ استعمال ہوا، حالاں کہ میرا یہ ارادہ بالکل نہیں تھا ،نہ  ہی میں نے زبان سے طلاق کا لفظ ادا کیا ،اب اگر میں حقِ مہر ادا کرنے سے پہلے والد صاحب کو تنخوا ہ دو ں تو کیاطلاق واقع ہوگی یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سائل کا بیان اگر واقع درست ہے کہ اس نے طلاق کا لفظ زبان سے ادا نہیں کیا تو صرف طلاق کے متعلق سوچنے یا اس کا خیال آنے سے اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ،دونوں کا نکاح برقرار ہے، والد کو تنخواہ دو،بیوی کو طلاق نہیں ہو گی۔

درمختار میں ہے:

"و ركنه لفظ مخصوص."

(کتاب الطلاق :3/ 230،ط:سعید )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307100725

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں