بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کا اختیار صرف مرد کو کیوں ہے؟


سوال

اگرکوئی مرد طلاق کی قسم کھائے کہ اگر میں نے فلاں کام کیا یا نہ کیا تو میری بیوی مجھ پر طلاق ہے۔ اب بیوی کا کیا قصور اگر مرد وہ کام کرتا ہے یا نہیں کرتا تو طلاق واقع ہو جاتی ہے؟ قسم تو مرد نے کھائی ہے اور بیوی کو پتہ بھی نہیں تو یہ طلاق کیسے واقع ہوئی؟ کیا طلاق کا مسئلہ علماء نے زیادہ پیچیدہ نہیں کیا ہے؟ جب نکاح دونوں کی ایجاب و قبول اور مرضی پر موقوف ہے تو طلاق کیوں نہیں؟ کیوں صرف مرد کے الفاظ سے طلاق وارد ہوتی ہے جبکہ بیوی راضی نہیں ہوتی اور یہاں تک کہ اکثر مرد بھی نادم رہتا ہے؟ اس مسئلہ کو غور سے دیکھنا ضروری ہے اور آپ سے گزارش ہے کہ مدلل طریقہ سے میری رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ قرآن کریم  اورا حادیث مبارکہ سے یہ بات وضاحت کے ساتھ  ثابت  ہے کہ  شریعت اسلامی میں طلاق کا اختیار اللہ تعالی نے صرف مرد کو دیا ہے، نکاح مرد اور عورت دونوں کی رضامندی سے منعقد ہوتا ہے لیکن طلاق کے ذریعہ نکاح کے ختم کرنے کا اختیار صرف مرد کو ہے، عورت کا اس میں کوئی اختیار نہیں ہے۔یہ فیصلہ علماء کرام نے نہیں کیا بلکہ یہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ ہے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے  تمام احکامات حکمت والے ہیں اور انہیں احکامات میں لوگوں کا فائدہ ہے اور انہیں احکامات کے ذریعے ایک مثالی معاشرہ وجود میں آسکتا ہے چاہے انسانوں کو ان احکامات کی حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے۔لہذا سائل کو چاہیے کہ وہ اول تو وہ اس بات کو خوب سمجھ لے کہ طلاق کا اختیار اللہ تعالی نے صرف مرد کو دیا ہے اور یہ کوئی اجتہادی اور اختلافی مسئلہ نہیں ہے بلکہ پوری امت کا اس پر اجماع ہےاور اتفاق ہے،اس میں علماء امت کا کوئی اختیار نہیں ہےاور سائل کے ذہن میں جو  مختلف سوالات پیدا ہو رہے ہیں  مثلا جب نکاح دونوں کے اختیار سے ہے تو پھر طلاق کیوں نہیں یا عورت کا اس میں کیا قصور ہے وغیرہ وغیرہ ان وساوس کو دفع کرے اور شریعت کے احکامات کو من و عن تسلیم کرے۔

مصنف عبد الرزاق میں ہے:

" عن ابن جريج، والثوري، عن يحيى بن سعيد، عن ابن المسيب قال: «الطلاق بالرجال، والعدة بالنساء."

(کتاب الطلاق، باب طلاق الحرۃ ،7 /236، المجلس العلمی الھند)

مرقاة المفاتيح میں ہے:

"له ما روي عنه - صلى الله عليه وسلم - «الطلاق بالرجال والعدة بالنساء.

ثم قال: ولو تم أمر ما رواه كان المراد به أن قيام الطلاق بالرجال؛ لأنه لو كان احتمالا للفظ مساويا لتأيد بما رويناه، فكيف وهو المتبادر إلى الفهم من ذلك اللفظ، كما في قولهم: الملك بالرجال، وفي سنن ابن ماجه من طريق ابن لهيعة عن ابن عباس «جاء النبي - صلى الله عليه وسلم - رجل فقال: يا رسول الله سيدي زوجني أمته وهو يريد أن يفرق بيني وبينها، فصعد النبي - صلى الله عليه وسلم - المنبر فقال: يا أيها الناس ما بال أحدكم يزوج عبده من أمته ثم يريد أن يفرق بينهما إنما الطلاق لمن أخذ بالساق» . ورواه الدارقطني أيضا من غيرها."

حدیث کا مفہوم: ’’ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول میرے آقا نے اپنی باندی سے میری شادی کی اور وہ چاہتا ہے کہ میرے اور اس کے درمیان تفریق کردے، پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے اور فرمایا کہ اے لوگوں تم میں سے ایک شخص کو کیا ہوگیا کہ وہ اپنے غلام کی شادی اپنی باندی سے کرتا ہے اور پھر وہ ان کے درمیان تفریق کرنے کا ارادہ کرتا ہے، طلاق کا اختیار صرف اس کا ہے جس نے پنڈلی کو پکڑا یعنی جو جماع کا مالک ہے وہ ہی طلاق کا بھی مالک ہے۔‘‘

(کتاب النکاح، باب الطلاق و الخلع،5/  2143، دار الفکر)

أحكام القرآن للجصاص میں ہے:

"قال الله تعالى: "يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن لعدتهن" قال أبو بكر: يحتمل تخصيص النبي بالخطاب وجوها أحدها اكتفاء بعلم المخاطبين بأن ما خوطب به النبي صلى الله عليه وسلم خطاب لهم إذ كانوا مأمورين بالاقتداء به إلا ما خص به دونهم فخصه بالذكر ثم عدل بالخطاب إلى الجماعة إذ كان خطابه خطابا للجماعة والثاني أن تقديره يا أيها النبي قل لأمتك إذا طلقتم النساء والثالث على العادة في خطاب الرئيس الذي يدخل فيه الأتباع كقوله تعالى إلى فرعون وملائه وقوله تعالى فطلقوهن لعدتهن.

قال أبو بكر: روي عن ابن عمر رضي الله عنه أنه طلق امرأته في الحيض فذكر ذلك عمر للنبي صلى الله عليه وسلم فقال مره فليراجعها وليمسكها حتى تطهر من حيضتها ثم تحيض حيضة أخرى فإذا طهرت فليفارقها قبل أن يجامعها أو يمسكها فإنها العدة التي أمر الله أن تطلق لها النساء. رواه نافع عن ابن عمر."

(سورۃ الطلاق،الآية:1، ج:5، ص: 346،ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأهله زوج عاقل بالغ مستيقظ.

(قوله: وأهله زوج عاقل إلخ) احترز بالزوج عن سيد العبد ووالده الصغير، وبالعاقل ولو حكما عن المجنون والمعتوه والمدهوش والمبرسم والمغمى عليه، بخلاف السكران مضطرا أو مكرها، وبالبالغ عن الصبي ولو مراهقا، وبالمستيقظ عن النائم. وأفاد أنه لا يشترط كونه مسلما صحيحا طائعا عامدا فيقع طلاق العبد والسكران بسبب محظور والكافر والمريض والمكره والهازل والمخطئ كما سيأتي."

(کتاب الطلاق،3/ 230، ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101324

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں