بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے لیے الفاظ طلاق کا ہونا ضروری ہے


سوال

علی نے دل میں کہا اگر علی نے روزہ توڑا تو علی کی بیوی کو طلاق، علی نے دل میں پکی نیت کر لی ،لیکن مذکورہ جملے کہنے کے بعد اس نے زبان سے کہا! نہیں نہیں اس طرح نہیں، ایسی نیت نہیں ہوسکتی ،یاد کرنے پر اسے یاد آیا کہ علی نے تعلیق دل میں کرنے سے قبل کہا تھا کہ نہیں نہیں اس طرح نہیں، ایسی نیت نہیں ہوسکتی۔ کیا علی اگر روزہ توڑ دیتا ہے تو کیا علی کی بیوی کو طلاق ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ طلاق  و تعلیقِ طلاق کے لیے الفاظِ طلاق کا  زبان سے ادا کرنا ضروری ہے ، جب تک زبان سے الفاظ ادانہ کریں بلکہ صرف دل میں کہے(نیت کرلے )تو اس سےطلاق معلق نہیں ہو گی ، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر علی روزہ توڑ دیتا ہے تواس سے علی کی بیوی  پر طلاق واقع نہ ہوگی، کیوں کہ زبان سے الفاظِ طلاق ادا نہ ہونے کی وجہ سے طلاق معلق ہی نہیں ہوئی تھی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي.
وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، وكذا ما يفعله بعض سكان البوادي."

(كتاب الطلاق،ركن الطلاق،ج:3، ص:230، ط: سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

وأما ركنه فهو اللفظ الدال على منع النفس عن الجماع في الفرج مؤكدا باليمين بالله تعالى أو بصفاته أو باليمين بالشرط والجزاء

(كتاب الطلاق، ج:3، ص:161، دار الكتب العلمية)
فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409101570

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں