بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کو طلاق کب دی جاسکتی ہے؟


سوال

میری شادی 11/12/2020کو ہوئی تھی،شادی کے ٹھیک دو ہفتہ بعد میری بیوی نے بدتمیزی کرنا شروع کردی،یہ میری دوسری شادی تھی،اور شادی سے پہلےمیں نے سب کچھ بتادیاتھا،اور یہ بغیر کسی اعتراض کرنے کو آمادہ اور راضی ہوگئی تھی،میں ایک کاروباری انسان ہوں،اور اپنا کاروبارکراچی میں کرتا ہوں،اور میں نے اپنی دوسری بیوی کو ہر قسم کی سہولیات میسر کی ہیں،تقریبا ایک سال کے بعد میری بیٹی پیدا ہوئی،میں مؤرخہ 11/12/2020 سے لے کر آج31/07/2022 تک اپنی اس دوسری بیوی  کے ساتھ کراچی میں رہتا ہوں،اس کے باوجود شادی سے لے کر مجھے اس بات پہ آمادہ کرتی ہے کہ میں اسے چھوڑدوں،میں لڑائی جھگڑے سے بہت تنگ آچکا ہوں،میں اسےکب کا چھوڑدیتا،مگر اپنی بیٹی کی وجہ سے برداشت کررہا ہوں،میری بیٹی کی عمر تقریبًا ایک سال ہے،اور میں اپنی اس دوسری بیوی کو ہر ماہ چالیس ہزار روپے الگ دیتا ہوں،جس میں اس کی صرف شاپنگ ہوتی ہے،سوال یہ ہے کہ اگر میں اپنی بیوی کو چھوڑدوں تو میری بیٹی کے میرے اوپر کیا حقوق ہوں گے؟ 

جواب

واضح رہے کہ  شرعًا حلال چیزوں میں سے سب سے مبغوض   ترین چیز طلاق ہے،طلاق سے شیطان خوش ہوتا ہے،اللہ تعالی ناراض ہوتے ہیں،اس لیے حتی الامکان طلاق سے گریز کرنا چاہیے،نیز احادیث مبارکہ  میں ایسی عورت کے بارے میں وعید آئی ہے جو بلاوجہ شرعی اپنے شوہر سے  طلاق کا مطالبہ کرے،ایسی عورت بروز قیامت جنت کی خوشبو سے بھی محروم ہوگی،مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں سائل نے اپنی دوسری بیوی سے متعلق جو کچھ لکھا ہے،یہ تفصیل اگر واقعتہ صحیح ہو تو ایسی صورت میں یقینا سائل کی اس دوسری بیوی کا مذکورہ رویہ شرعا ناجائز ہے،سائل جب اپنی اس بیوی کے تمام شرعی حقوق ادا کررہا ہے،تو اس کی جانب سے بے جا طلاق کا مطالبہ کرنا  یابدتمیزی وغیرہ کرنا غیر شرعی ہے،اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس رویہ سے باز آجائے،سائل کو چاہیے کہ وہ اس معاملہ میں شرعی مصالحت کے لیے  دونوں خاندان کے معزز اور سمجھدار بزرگ افراد سے رابطہ کرے،اوران کے ذریعے ان اختلافات کو حل کرنے کی کوشش کرے،فی الوقت طلاق جیسا قدم نہ اٹھائے،اگر معاملہ کسی طرح بھی حل نہ ہو  اور  طلاق دینا ناگزیر ہوجائے تو اس بیوی کو اس کی پاکی کے ایام میں (جس میں سائل نے بیوی کے ساتھ ہم بستری نہ کی ہو) صرف ایک طلاق دے کر علیحدہ کردے،عدت گذرنے کے بعد نکاح ختم ہوجائے گا،اس کے بعد بچی کی تربیت کا حق نو سال کی عمر تک بچی کی ماں کو ہوگا بشرطیکہ ماں اس دوران بچی کی غیر محرم سے نکاح نہ کرے،ورنہ حق پرورش ختم ہوکر نانی کی طرف منتقل ہوجائے گا،مذکورہ مدت کے  بعد  باپ کا حق ہوگا کہ وہ اپنی بچی کی تعلیم وتربیت کرے،بچی کے اخراجات باپ کے ذمہ لازم ہوں گے۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن ‌محارب بن دثار ، عن ‌ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «‌أبغض ‌الحلال إلى الله عز وجل الطلاق."

(کتاب الطلاق،باب كراهية الطلاق، ص:2178، ج:2، ط: دهلي)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها، وجوب طاعة الزوج على الزوجة إذا دعاها إلى الفراش لقوله تعالى {ولهن مثل الذي عليهن بالمعروف} [البقرة: 228] قيل: لها المهر والنفقة، وعليها أن تطيعه في نفسها، وتحفظ غيبته؛ ولأن الله عز وجل أمر بتأديبهن بالهجر والضرب عند عدم طاعتهن، ونهى عن طاعتهن بقوله عز وجل {فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا} [النساء: 34] ، فدل أن التأديب كان لترك الطاعة، فيدل على لزوم طاعتهن الأزواج."

(کتاب النکاح، فصل وجوب طاعة الزوج، ص:334، ج:2، ط: دار الكتب العلمية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان من له الحضانة فالحضانة تكون للنساء في وقت وتكون للرجال في وقت والأصل فيها النساء؛ لأنهن أشفق وأرفق وأهدى إلى تربية الصغار ثم تصرف إلى الرجال؛ لأنهم على الحماية والصيانة وإقامة مصالح الصغار أقدر ولكل واحد منهما شرط فلا بد من بيان شرط الحضانتين ووقتهما أما التي للنساء فمن شرائطها أن تكون المرأة ذات رحم محرم من الصغار فلا ‌حضانة لبنات العم وبنات الخال وبنات العمة وبنات الخالة؛ لأن مبنى الحضانة على الشفقة، والرحم المحرم هي المختصة بالشفقة ثم يتقدم فيها الأقرب فالأقرب فأحق النساء من ذوات الرحم المحرم بالحضانة الأم؛ لأنه لا أقرب منها ثم أم الأم ثم أم الأب؛ لأن الجدتين وإن استويتا في القرب لكن إحداهما من قبل الأم أولى."

(كتَاب الْحضانَة، فَصْل فِي وقْت الْحَضَانة، ٤ / ٤١ - ٤٣، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401100253

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں