بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد بچوں کی ذمہ داری کس پر ہے؟


سوال

 میر ے پڑ وسی نے غصے میں آکر اپنی بیگم کو ایک سا تھ تین طلاق دے دی۔ جس کے بعد سے بیو ی اپنے بھائی کے گھر چلے گئی ہے اور بچے بھی ساتھ لے گئی ہے۔ اور بچو ں کو اپنے والد سے ملاقات بھی نہیں کر نے دے رہی ہے اور  بچو ں کے ذہن میں والد کی نفرت ڈال دی ہے۔ طلاق کے واقعہ کو ایک سال کا عرصہ ہو گیا ہے ۔ اس بھا ئی  کا گھر تباہ ہو گیا ہے،  بہت پریشان ہے اور اکیلے رہتا ہے۔ بچو ں کی عمریں 10 سے 15 سال تک ہے۔ آپ مہر بانی فر ماکر دعا کریں اور کو ئی وظیفہ بتائیے کہ بھا ئی  کے بچے واپس آجائیں اور رابطہ کریں اپنے والد سے۔ 

جواب

میاں بیوی میں علیحدگی ہوجانے کی صورت میں بچوں کی پرورش و دیکھ بھال کے حوالے شرعی ضابطہ یہ ہے کہ لڑکے جب تک سات سال کے اور  لڑکیاں نو سال  کی نہ ہوجائیں، اس وقت تک  ماں انہیں اپنی پرورش میں رکھنے کی مجاز ہوتی ہے، اس عرصہ میں باپ ، اس سے بچے لینے کا اہل نہیں ہوتا،  البتہ باپ اپنے بچوں سے ملاقات کر سکتا ہے، ملاقات سے روکنے کا حق ماں کو حاصل  نہیں ہوتا، نیز بچوں کا خرچہ بہرصورت والد کے ذمے ہوتاہے۔

پس صورتِ  مسئولہ میں بچوں کی عمر چوں کہ 10 سے 15 سال ہوچکی ہے، لہذا باپ اپنے بچے بچوں کی ماں سے واپس لینے کا حق دار ہے، والد کی رضامندی کے بغیر ماں کے  لیے اب بچے اپنے پاس روکے  رکھنے کا حق نہیں، خلاصہ یہ ہے کہ بچوں سے ملاقات نہ کرانے کا  حق جس طرح سے ماں کو حاصل نہیں،  اسی طرح سے باپ کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ بچوں کو  ان کی ماں  ملنے سے منع  کرے۔

آپ کے پڑوسی کو چاہیے کہ خاندان یا محلے کے با اَثر  اَفراد کی پنچائیت یا کسی مستند دار الافتاء میں اپنا معاملہ پیش کرکے شریعت کے احکام کی روشنی میں اپنا مسئلہ حل کروالے، نیز  کثرت کے ساتھ یاوَدُودُ کا ورد  رکھے اور تہجد میں اللہ تعالی سے دعا کا اہتمام کرے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

(قوله والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع) ؛ لأنه إذا استغنى يحتاج إلى تأديب والتخلق بآداب الرجال وأخلاقهم والأب أقدر على التأديب والتعنيف وما ذكره المصنف من التقدير بسبع قول الخصاف اعتبارا للغالب؛ لأن الظاهر أن الصغير إذا بلغ السبع يهتدي بنفسه إلى الأكل والشرب واللبس والاستنجاء وحده فلا حاجة إلى الحضانة فلا مخالفة بين تقدير الاستغناء بالسن وبين أن يقدره على الأشياء الأربعة وحده كما هو المذكور في الأصل ولم يذكر الاستنجاء في المبسوط وذكره في السير الكبير وزاد في نوادر ابن رشيد ويتوضأ وحده ثم من المشايخ من قال المراد من الاستنجاء تمام الطهارة بأن يطهر وجهه وحده بلا معين ومنهم من قال بل من النجاسة وإن لم يقدر على تمام الطهارة وهو المفهوم من ظاهر كلام الخصاف.

وفي غاية البيان والتبيين والكافي أن الفتوى على قول الخصاف من التقدير بالسبع؛ لأن الأب مأمور بأن يأمره بالصلاة إذا بلغها وإنما يكون ذلك إذا كان الولد عنده... (قوله وبها حتى تحيض) أي: الأم والجدة أحق بالصغيرة حتى تحيض؛ لأن بعد الاستغناء تحتاج إلى معرفة آداب النساء والمرأة على ذلك أقدر وبعد البلوغ تحتاج إلى التحصين والحفظ والأب فيه أقوى وأهدى وبه علم أنه لو قال حتى تبلغ لكان أولى وعن محمد أنها تدفع إلى الأب إذا بلغت حد الشهوة لتحقق الحاجة إلى الصيانة قال في النقاية وهو المعتبر لفساد الزمان،... وقدره أبو الليث بتسع سنين وعليه الفتوى اهـ.

( باب الحضانة، ٤ / ١٨٤، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201834

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں