بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد اولاد کا نفقہ کس کے ذمے ہے؟


سوال

شوہر نے بیوی کی غیر موجودگی میں خاندان کے بعض دیگر افراد کے سامنے تین طلاقیں دیں۔ ان کے تین بچے ہیں، بیٹی  ساڑھے  18 سال دو بیٹے 17,16 سال کے، تینوں بچے اپنی والدہ کے پاس رہنا چاہتے ہیں۔ والد نے بچوں سے کہا ہے اگر ماں کے پاس رہنا ہے تو میں کفالت کا ذمہ دار نہیں ہوں گا۔

برائے مہربانی تفصیلاً  بتادیجیے اگر بچے والدہ کے پاس رہنا چاہتے ہیں تو  کیا والد بچوں کے خرچہ کے ذمہ دار نہیں ہوں گے؟ اور خود بری  الذمہ ہوسکتے ہیں؟ ذمہ دار ہوں گے اگر تو کب تک؟ بیٹی اور بیٹوں کا الگ الگ حکم  واضح فرمادیں۔

بعض مسائل میں پڑھاہے کہ  جب تک بچے کمانے کے اہل نہیں ہوجاتے، کمانے کے اہل ہونے سے مراد بالغ ہونا ہے یا کمائی کا باقاعدہ کوئی بندوبست ہونا ہے؟

نیز بیٹی کی کفالت کب تک باپ کے ذمہ ہے؟ بیٹی کی شادی وغیرہ کا خرچہ کس کے ذمہ ہوگا؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں لڑکی کی جب تک شادی نہیں ہوجاتی اس وقت تک اس کے نفقہ کی  ذمہ داری باپ  پر بقدرِ  استطاعت   ہوگی، نیز اس کی شادی کے اخراجات بھی بقدرِ  استطاعت باپ پر ہی ہوں گے، خواہ وہ  ماں کے پاس رہے یا باپ کے ساتھ رہے، البتہ اگر مذکورہ بیٹی سمجھ دار نہ ہو، تو اس صورت میں شرعًا باپ اسے اپنے پاس رکھنے  کا حق دار ہوگا۔

اور بیٹوں کے نفقے کے بارے میں حکم یہ ہے کہ  جب لڑکے کمانے کے قابل ہوجائیں، تو ان کے نفقہ کی ذمہ داری باپ پر نہیں، تاہم بلوغت کے بعد اگر  لڑکوں میں سمجھ داری پیدا نہ ہوئی ہو تو اس صورت میں باپ انہیں اپنے پاس رکھنے کا حق دار ہوگا، اور  سمجھ داری آجانے کے  بعد جہاں چاہیں وہ رہ سکتے ہیں،  بہر صورت کمانے کے قابل ہوجانے کے بعد باپ پر ان کے نفقہ کی ذمہ داری نہ ہوگی، البتہ اگر وہ خوشی سے یہ ذمہ داری نبھانا چاہے تو نبھا سکتا ہے۔

کمانے کا اہل ہونے کا مطلب  صرف بالغ ہونا نہیں ہے، بلکہ  بالغ ہونے کے ساتھ کوئی ذریعہ معاش اختیار کرنے پر قادر ہونا بھی ہے، لہٰذا بالغ لڑکا اگر (خدانخواستہ) معذور ہو  اور اس کے پاس مال نہ ہو تو اس کا نفقہ والد کے ذمے  واجب ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و نفقة الإناث واجبة مطلقًا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال، كذا في الخلاصة.

و لايجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزًا عن الكسب لزمانة، أو مرض و من يقدر على العمل لكن لايحسن العمل فهو بمنزلة العاجز، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ١ / ٥٦٢، ط: دار الفكر)

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر میں ہے:

"(و نفقة البنت بالغة) أو صغيرة و لم يذكرها لإغناء الطفل (والابن) البالغ (زمنًا) بفتح الزاي و كسر الميم أي الذي طال مرضه زمانًا كما في المغرب أو الذي لايمشي على رجليه كما في المذهب و كذا أعمى و أشل و غيرهما فقير تجب (على الأب خاصة و به يفتى) هذا ظاهر الرواية."

( باب النفقة، نفقة البنت بالغة أو صغيرة، ١ / ٤٩٨، ط: دار إحياء التراث العربي)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"و الذي قلنا في الصغار من الأولاد كذلك في الكبار إذا كن إناثًا؛ لأنّ النساء عاجزات عن الكسب؛ و استحقاق النفقة لعجز المنفق عليه عن كسبه، و إن كانوا ذكورًا بالغين لم يجبر الأب على الإنفاق عليهم لقدرتهم على الكسب، إلا من كان منهم زمنًا، أو أعمى، أو مقعدًا، أو أشل اليدين لاينتفع بهما، أو مفلوجًا، أو معتوهًا فحينئذ تجب النفقة على الوالد لعجز المنفق عليه عن الكسب، و هذا إذا لم يكن للولد مال فإذا كان للولد مال فنفقته في ماله؛ لأنه موسر غير محتاج و استحقاق النفقة على الغني للمعسر باعتبار الحاجة إذ ليس أحد الموسرين بإيجاب نفقته على صاحبه بأولى من الآخر."

(كتاب النكاح، باب نفقة ذوي الأرحام، ٥ / ٢٢٣، ط: دار المعرفة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و بعدما استغنى الغلام و بلغت الجارية فالعصبة أولى يقدم الأقرب فالأقرب كذا في فتاوى قاضي خان. ويمسكه هؤلاء إن كان غلاما إلى أن يدرك فبعد ذلك ينظر إن كان قد اجتمع رأيه وهو مأمون على نفسه يخلى سبيله فيذهب حيث شاء، وإن كان غير مأمون على نفسه فالأب يضمه إلى نفسه ويوليه ولا نفقة عليه إلا إذا تطوع، كذا في شرح الطحاوي.

و الجارية إن كانت ثيبًا و غير مأمونة على نفسها لايخلى سبيلها ويضمها إلى نفسه، وإن كانت مأمونة على نفسها فلا حق له فيها ويخلى سبيلها وتنزل حيث أحبت كذا في البدائع.

وإن كانت البالغة بكرًا فللأولياء حق الضم، وإن كان لا يخاف عليها الفساد إذا كانت حديثة السن وأما إذا دخلت في السن واجتمع لها رأيها وعفتها فليس للأولياء الضم ولها أن تنزل حيث أحبت لايتخوف عليها، كذا في المحيط."

( كتاب الطلاق، الباب السادس عشر في الحضانة، ١ / ٥٤٢ - ٥٤٣، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202353

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں