بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد بیوی کو دیے گئے زیورات کا حق دار کون ہو گا؟


سوال

جب میری شادی ہوئی تو اس وقت مجھے شوہر کی طرف سے کچھ زیورات ملے، کچھ عرصہ بعد ہمارے درمیان طلاق واقع ہو گئی، اور طلاق کے وقت مجھے کہا گیا کہ زیورات صرف پہننے کے لیے دیے گئے تھے، جب کہ شادی کے وقت ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی، اب پوچھنا یہ ہے کہ میں وہ زیورات لینے کا حق رکھتی ہوں یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر زیورات دیتے وقت کچھ طے نہ کیا گیا تھاتو ایسی صورت میں   لڑکے  والوں  کا رواج  دیکھا جائے گا، اگر ان کا رواج یہ ہو کہ یہ زیورات محض استعمال کے لیے دیے جاتے ہوں تو یہ زیورات لڑکے والوں کے شمار ہوں گے، سائلہ اس کی حق دار نہ ہو گی، اگر ان کا عرف و رواج بطورِ ملک دینے کا ہے  یا ان کا کوئی  واضح رواج نہیں ہے تو ان دونوں صورتوں میں زیورات کی مالک لڑکی/ سائلہ ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها".

 (3/158،  کتاب النکاح، باب المهر، ط:سعید)        

       وفیه ایضاً:

"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحةً، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هديةً لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحةً، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً".

(3/ 153،  کتاب النکاح، باب المهر، ط: سعید)

وفیه ایضاً:

"والمعتمد البناء على العرف كما علمت".

(3/157،   کتاب النکاح،  باب المهر، ط: سعید)    

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100005

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں