بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد مہر اور عدت کے اخراجات کا حکم


سوال

1- میں نے اب سے دو سال پہلے اپنی کلاس فیلو کے ساتھ نکاح کیا تھا، نکاح سے پہلے میں نے اسے کہا تھا میں اس ٹائم اپنی حیثیت کے مطابق آپ کو ایک تولہ سونا حق مہر دے سکتا ہوں، اس کے علاوہ زندگی میں جب بھی میرے حالات بہتر ہوئے میں آپ کو  10 تولہ یا اس سے زیادہ سونا ویسے بنوا دوں گا، لیکن وہ حق مہر میں شامل نہیں ہوگا، اس ٹائم میری حیثیت ایک تولہ سونا کی ہے جو میں آپ کو حق مہر میں دے سکتا ہوں، اگر آپ کو منظور ہو تو میں نکاح کا بندوبست کرتا ہوں۔ اس کے جواب میں اس نے جو کہا وہ مجھے صرف اتنا یاد ہے (کمی پیشی اللہ پاک کی ذات معاف کرے) کہ آپ بعد میں جو بھی بنواکر دیں گے وہ حق مہر تو نہیں ہو گا نا، میں زیادہ حق مہر کا اس لیے کہہ رہی ہوں؛ تاکہ نکاح میں برکت ہو، کیوں کہ میں نے سنا ہے جتنا زیادہ مہر ہو نکاح میں اتنی برکت ہو تی ہے، پھر اس نے کہا آپ نکاح کا بندوبست کر لیں، مجھے منظور ہے اس سے زیادہ ہمارے درمیان اس موضوع پر بات نہیں ہوئی، اور یہ تمام باتیں نکاح سے پہلے صرف میرے اور میری سابقہ بیوی کے درمیان ہوئی وہاں کوئی تیسرا فرد موجود نہیں تھا۔ اس کے بعد 2 گواہوں کی موجودگی میں صرف 1 تولہ سونا کے بدلے نکاح خواں نے نکاح پڑھا دیا  اور نکاح کے دوران قبولیت میں بھی لڑکی نے 1 تولہ کے بدلے نکاح کو قبول کیا اور وہ 1 تولہ سونا میں نے اسے ادا بھی کر دیا تھا۔ اب نکاح کے 3 سال بعد آپس کے اختلافات کی وجہ سے ہمارے درمیان طلاق ہو گئی ہے۔

برائے مہربانی راہ نمائی فرما دیں جو سونا میں نے بعد میں ویسے بنوا کر دینے کا وعدہ کیا تھا کیا وہ بھی حق مہر کی طرح دینا مجھ پر فرض ہے یا نہیں؟ اور اگر فرض ہے تو وہ میں کتنا ادا کروں اور اگر فرض نہیں ہے تو میرے لیے اللہ پاک کا کیا حکم ہے؟ کیوں کہ میں نے جو وعدہ کیا تھا وہ میں پورا نہیں کر سکا اس سے پہلے ہی ہمارے درمیان طلاق ہو گئی ہے۔ اس وعدہ کی تلافی کے لیے میرے لیے اللہ پاک کا کیا حکم ہے؟ نیز اس سب معاملہ میں میری سابقہ بیوی نے ایسی کوئی شرط مجھ سے طے نہیں کی تھی کہ آپ بعد میں مجھے لازمی بنوا کر دیں گے اور نہ ہی بعد میں لینے سے انکار کیا تھا، بس وہی الفاظ بولے تھے جو میں نےاوپر بیان کر دیے ہیں اور وہ نکاح کے لیے اقرار کر کے خاموش ہو گئی تھی اور نہ ہی وہ اب مجھ سے لینے کا مطالبہ کر رہی ہیں، لیکن میں یہ چاہتا ہوں جو بھی شریعت مجھے حکم دیتی ہے میں وہ ضرور پورا کروں۔

2۔ طلاق کے بعد عدت کا جو وقت ہے وہ میری سابقہ بیوی نے اپنے ماں باپ کے ہاں پورا کیا ہے اور میں نے اسے کوئی نان نفقہ نہیں دیا جو عدت کے دنوں میں مجھ پر فرض تھا۔ برائے مہربانی بتا دیں آج کے دور میں اسلامی طریقہ کے مطابق وہ کتنا بنتا ہے؟ تاکہ میں وہ ادا کر دوں!

جواب

1- اگر نکاح کے موقع پر مہر ایک تولہ مقرر کیا گیا تھا اور سائل کی بیوی نے اسے قبول بھی کیا تھا تو سائل کے ذمے مہر میں ایک تولہ سونا دینا ہی واجب ہے۔ مہر کے علاوہ سونا بنانے کا وعدہ کیا تھا طلاق واقع ہونے کی وجہ سے اس کا بنانا سائل پر لازم نہیں اور نہ ہی اسے وعدہ خلافی کا گناہ ہوگا۔

2- اگر سائل کی بیوی نے سائل کی رضامندی سے عدت والدین کے گھر گزاری تھی تو عدت کا خرچہ شوہر کے ذمہ واجب تھا، لیکن اگر سائل نے عدت کے زمانے کا خرچہ اپنی بیوی کو نہیں دیا اور پہلے سے کوئی خرچہ طے نہیں ہوا تھا تو سائل کے ذمہ اس کی ادائیگی واجب نہیں، لیکن اگر سائل دینا چاہے تو دے سکتا ہے، اخراجات کی تعیین میں مرد اور  عورت دونوں کی حالت کا اعتبار ہوگا۔ فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201304

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں