بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد عدت کا اعتبار کب سے ہوگا؟


سوال

5 جنوری کو  میں نے آپ کو ایک ٹیکسٹ پیغام بھیجا جس میں کہا گیا تھا کہ  میں آپ کو طلاق دیتا ہوں۔' 20 دن کے بعد، 25 جنوری کو، میں نے ایک اور ٹیکسٹ پیغام بھیجا  جس میں کہا گیا تھا کہ 'میں آپ کو طلاق دیتا ہوں'۔ 'میں آپ کو طلاق دیتا ہوں 'میں آپ کو طلاق دیتا ہوں ،میں اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہوں کہ ہم اپنی طلاق کے لیے صحیح طریقہ کار پر عمل کر رہے ہیں۔ براہ کرم مجھے بتائیں کہ کیا ہمیں 5 جنوری کو کیے گئے اعلان کو سرکاری طور پر ماننا چاہیے، یا 25 جنوری کو اس کے بعد کا اعلان اس کی جگہ لے لیتا ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سائل نے جب اپنی بیوی کو ۵ جنوری کو ایک طلاق دے دی تھی اور اس کے بیس دن بعد سائل نے اپنی بیوی کو مزید تین  طلاقیں دیں تو اس  سے بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اور بیوی شوہر پر حرمت مغلظہ سے حرام ہوگئی ہے، اب رجوع جائز نہیں اور دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا۔ 

عدت کے دوران مزید طلاق دینے سے   پہلی والی طلاق کالعدم نہیں ہوگی،  بلکہ وہ ایک طلاق شمار ہوگی اور 25 جنوری کو دی گئی طلاقوں میں دو طلاقیں واقع ہوجائیں گی اور ایک طلاق لغو ہوگی ،مجموعی اعتبار سے تین طلاقیں شمار ہوں گی اور عورت کی    عدت  کا آغاز  5  جنوری والی طلاق سے ہی ہوگا  ۔

الموسوعة الفقهية الكويتية  میں ہے:

"ذهب الحنفية إلى أن العدة تبدأ في الطلاق عقيب الطلاق، وفي الوفاة عقيب الوفاة، لأن سبب وجوب العدة الطلاق أو الوفاة، فيعتبر ابتداؤها من وقت وجود السبب، فإن لم تعلم بالطلاق أو الوفاة حتى مضت مدة العدة فقد انقضت مدته."

(جلد۲۹، ص:۳۲۶، ط:  دار السلاسل)

فتاوی شامی میں ہے: 

"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس."

 (3/ 397، كتاب الطلاق، باب الرجعة، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507102325

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں