بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد بیوی کو کچھ دینا لازم نہیں


سوال

 میں ڈاکٹر ہوں اور پاکستان میں کام کرتا ہوں، شادی میری دبئی میں ہوئی تھی، کیوں کہ میرے اور میری سابقہ زوجہ کے گھر والےوہاں مقیم ہیں، شادی کے چند دن بعد ہم پاکستان آگئے، شادی کے بعد ہمارے درمیان کافی مسائل چلتے رہے، پانچ ماہ بعد زوجہ کا دبئی جانا ہوا امتحانات کے سلسلے میں، اور جاتے وقت ہمارے درمیان رضامندی تھی، وہاں پر کچھ قیام میرے گھر والوں کے ساتھ رہا ،اور اس کے بعد وہ اپنے گھر والوں کے پاس چلی گئی میری اجازت سے، کچھ عرصے بعد ہماری کال پر بحث ہوئی، ان کی واپسی کی ٹکٹ پر جو کہ میں ان کو بھیجی تھی ،کیوں کہ ان کے امتحانات ختم ہوچکے تھے، بحث کے بعد میرا ان سے رابطہ نہ ہوا، اور میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ ان کو رہتے دنوں کے لئے اپنے پاس بلا لیں، اور پھر واپس بھیج دیجیے، میری والدہ کے بلانے پر انہوں نے انکار کردیا، اور اس کے بعد بغیر کسی اطلاع کے وہ پاکستان بھی نہیں آئیں، اور ٹکٹ ضائع کردی، مسائل بڑھنے، اور اپنی زوجہ سے مزید نباہ کے سوال پر انہوں نے کوئی جواب نہ دیا، اور ان کے والد نے واضح کہا کہ تمہارے طلاق دینے کی ہمیں کوئی پروا نہیں، تم نے جو کرنا ہے کر گزرو،میری اور میرے گھر والوں کی صلح کی تمام کوششوں کو ٹھکرا کر انہوں نے صرف میرے وہاں آنے کی ضد کی جو میرے لئے ممکن نا تھی، پس ایک طلاق دے دی اور کچھ عرصے بعد یکے بعد دیگرے دوسری اور تیسری طلاق دے دی،جہیز کا اور باقی سامان کا لین دین ہوچکا،اب انہوں نے طلاق کی تصدیق کے ساتھ، ایک بہت بھاری رقم کا مطالبہ کرکے دبئی کورٹ میں کیس دائر کر رکھا ہے،سوال یہ ہے کہ بتائی گئی صورت میں مجھ پر ان کو کوئی خرچہ دینا بنتا ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی تھی،تو اس پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئی تھیں،اب رجوع اور دوبارہ نکاح نہیں ہوسکتا،عورت اپنی عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو،اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک)گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے،سائل کے بیان کے مطابق میاں بیوی کے درمیان لین دین کا کوئی معاملہ باقی نہیں ہے،لہذا سائل پر کچھ دینالازم نہیں،البتہ اگرکوئی لین دین کامعاملہ جس میں سائل پر کچھ دینالازم آتا ہو تو شرعاً دینالازم ہے۔

"فتاوی عالمگیری" میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا و يدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية. و لا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولًا بها أو غير مدخول بها، كذا في فتح القدير. و يشترط أن يكون الإيلاج موجبًا للغسل و هو التقاء الختانين، هكذا في العيني شرح الكنز. أما الإنزال فليس بشرط للإحلال."

( كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة...الخ، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج: 1، ص:473، ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406101719

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں