بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد ۱۰ سال کی بیٹی اور ۴ ماہ کے بیٹے کی پرورش کا حکم


سوال

میں اپنی بیوی کو اس کی بد چلنی اور زناکاری کی وجہ سے طلاق دے رہاہوں. میری ایک دس سالہ بیٹی ہے اور ایک چار ماہ کا بیٹا ہے. ان کی کفالت میں اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں. شریعت میں اس کے لیے کیا حکم ہے؟ اور اگر میری بیوی طلاق کے بعد کسی سے نکاح کرتی ہے تو  کیا ایسی صورت حال میں وہ بچوں کی کفالت کا حق رکھ  سکتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ میاں بیوی میں علیحدگی کے بعد لڑکیوں کی پرورش کا حق  نو سال تک اور لڑکوں کا سات سال تک ان کی والدہ کو حاصل ہے، بشرطیکہ بچوں کی والدہ  ان کے غیرمحرم سے شادی نہ کرے،  اگر غیر خاندان میں شادی کر لی، تو نانی کوحقِ پرورش حاصل ہوگا اگر نانی زندہ ہو۔  اور اگر نانی زندہ نہیں، تو  دادی کوحقِ پرورش حاصل ہوگا، نو سال کے بعد بچی اور سات سال کے بعد  بچے کی پرورش کا حق اس کے والد کو حاصل ہوگا، اور والدہ کے نہ دینے  پر  بچوں کا والد   قانونی چارہ جوئی کا بھی حق رکھتا ہے، تاہم بیٹے یا بیٹیاں جب تک والدہ کی پرورش میں ہوں،  تب بھی ان کی شادی تک  ان کے والد ہی کے ذمہ ان  کا نان ونفقہ  لازم ہوگا، بشرط یہ کہ ان کا اپنا کوئی مال نہ ہو۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں دس سالہ بیٹی کو تو والد اپنے پاس رکھ  سکتا ہے اور چار ماہ کے بیٹے کو اس کی والدہ ہی کے حوالہ کردے سات سال تک بشرطیکہ اس کی والدہ نے کسی غیر  ذی رحم محرم سے نکاح نہ کیا ہو، اور اگر کسی غیر سے نکاح کر لیا تو پھر بیٹے کی پرورش کا حق والدہ کو نہ ہوگا، بلکہ نانی اگر موجود ہو تو  اسے حق حاصل ہوگا، اس کے بعد دادی کو ، بہر صورت بچوں کا نان ونفقہ والد ہی پر ہوگا۔ 

اگر سائل کا بیان درست ہے اور واقعۃً بیوی کی بدکرداری کی وجہ سے بیٹے کی تربیت پر برا اثر پڑنے کا واقعی اندیشہ ہے تو اس صورت میں بیٹے کی تربیت کا حق بچے کی نانی کو ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرًا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم، بحر بحثاً.

وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع، وبه يفتى".(3/566، باب الحضانة، ط:سعید)

وفیه أیضاً:

"حاصل ما ذكره في الولد إذا بلغ أنه إما أن يكون بكرًا مسنةً أو ثيبًا مأمونةً، أو غلامًا كذلك فله الخيار وإما أن يكون بكرًا شابةً، أو يكون ثيبًا، أو غلامًا غير مأمونين فلا خيار لهم بل يضمهم الأب إليه". (3/569،  باب الحضانة، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ونفقة الإناث واجبة مطلقاً على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال، كذا في الخلاصة". (1/563، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ط: رشیدیه)

الفتاوى الهندية (1/ 541):
" أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدةً أو فاجرةً غير مأمونة، كذا في الكافي ... وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجةً بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة ... والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني، وقدر بسبع سنين، وقال القدوري: حتى يأكل وحده، ويشرب وحده، ويستنجي وحده. وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين، والفتوى على الأول. والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض. وفي نوادر هشام عن محمد - رحمه الله تعالى -: إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق، وهذا صحيح. هكذا في التبيين ... وإذا وجب الانتزاع من النساء أو لم يكن للصبي امرأة من أهله يدفع إلى العصبة فيقدم الأب، ثم أبو الأب، وإن علا".
 فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110201208

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں