بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے ظلم کی صورت میں طلاق یا خلع،حضانت اور بچوں کے نفقہ کاحکم


سوال

1۔مىں اپنے شوہر سے خلع چاہتی ہوں ، میرے دوبچے ہیں،ایک بیٹا  ہے جو پانچ سال کا ہے، اوردوسری بیٹی ہے جس کی عمر  ساڑھے تین سال ہے، خلع کی وجہ یہ ہے کہ میرے شوہرمجھ پر زیادتی کرتے ہیں  اور غلیظ غلیظ قسم کےالزامات لگاتے ہیں ،یعنی  شک کرتے ہیں اور کافی بار ہاتھ بھی اٹھایا ہے، نہ کبھی میری اوربچوں کی ذمہ داری اٹھائی اور نہ کبھی کوئی اخراجات پورے کیے،اورنہ ہی بچوں کےدادا دادی بچوں کی دیکھ بال کرتے تھے،  سب کچھ میں اور میرے والدین برداشت کرتے ہیں، میرے شوہر بچوں کی طرف دھیان نہیں دیتے، بچوں سے چِڑکر جان سے ماردینےکی دھمکیاں دیتے رہے  ، بچوں کے دلوں میں میری نفرتیں  اور غلط غلط باتیں ڈالتے تھے مثلاً:"یہ بچے میرے ہیں "یہ الفاظ میرے شوہرنے کئی مرتبہ  کہے ہیں  ، اس لیے میں چاہتی ہوں کہ میرے بچوں    کی پرورش میں خود کروں ، جیسے اب تک کرتی آرہی ہوں ، اور بچوں کے سہارے اپنی بقیہ زندگی گزاروں ۔

2۔کیا شریعت ایسے باپ سےبچوں  کو ملانے کی اجازت دیتی ہے؟اگر دیتی ہے تو کس طرح ملاقات کی اجازت دیتی ہے؟او ر اگر  بچے نہ جانا چاہیں اور  ملنے سے انکارکریں تو کیا باپ بچوں سےملنے کے لیے زبردستی کرسکتا ہے؟ میں چاہتی ہوں کہ باپ سے بچوں کی ملاقات ہماری موجودگی میں ہو، میرے والد اور بھائی کی نگرانی میں ہو، دادا دادی کے گھرجانے کی اجازت مجھے منظور نہیں ، کیا شریعت مجھے اس کی اجازت دیتی ہے،جب کہ بچوں کی پیدائش سے لے کر اب تک میرا اور میرے بچوں کا خیال میں نےاور میرے والدین نے رکھاہے، میری راہ نمائی فرمادیجئے۔

3۔اگر ہمارے درمیان  علیحدگی ہوجاتی ہے تو  بچوں کی اسکول فیس اور بچوں کے دیگر اخراجات باپ کے ذمہ آئیں گے یا نہیں؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں اگر سائلہ کا بیان واقعۃً درست ہےتواولاً خاندان کے بڑوں کے ذریعے یا کسی اورذریعہ سےمعاملہ حل کرواکر نباہ کی کوشش کیجیے، اور اگر نباہ کی  کوئی صورت نہ بنے ،تو شوہر کو چاہیے کہ سائلہ کو ایک طلاق دےدے ، اس کے بعد سائلہ عدت گزار کر  دوسری جگہ نکاح  کرنے میں آزاد ہوگی، اگروہ بلاعوض طلاق دینے پر  راضی نہ ہو تو سائلہ  اس سے خلع کا مطالبہ کرسکتی ہیں، اگر وہ خلع پر راضی ہو تو خلع درست ہوگا، اگر وہ خلع پر راضی نہ ہوتو یک طرفہ خلع درست نہیں ہوگا۔

2۔واضح رہےکہ زوجین کے درمیان جدائی ہونے کی صورت میں بچے کی عمر سات سال ہونے تک اور بچی کی عمر نو سال ہونے تک ، ان کی پرورش کا حق والدہ کو حاصل ہوتا ہے، مذکورہ عمر کو پہنچ جانے کے بعد تعلیم و تربیت کا حق والد کو حاصل ہوتا ہے۔البتہ والدہ کی پرورش کے دوران والدکو شرعا حق حاصل ہے کہ وہ اپنی اولاد سے ملاقات کرے،لیکن شوہربچوں کیمذکورہ عمرپہنچنے سے پہلےبیوی کی اجازت کے بغیران کو ساتھ نہیں لے جاسکتا۔

3۔بچوں کانفقہ ہرصورت میں  والد کے ذمے ہیں اوراسکول کی فیس اوردیگر اخراجات والد کی وسعت کے مطابق  ان پرلازم ہوں گے۔

ارشادِ  باری تعالیٰ ہے:

{فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ} [البقرة: 229]

ترجمہ: سو اگر تم لوگوں کو یہ احتمال ہو کہ وہ دونوں ضوابط خداوندی کو قا ئم نہ کرسکیں گے تو دونوں پر کوئی  گناہ نہ ہوگا اس (مال کے لینے دینے) میں جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑالے۔

 (از بیان القرآن)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال

(کتاب الطلاق ، الباب الثامن في الخلع  ،ج:1,ص:488,ط:دارالفكر)

حیلہ ناجزۃ میں ہے :

وأما المتعنت الممتنع عن الإنفاق ففي مجموع الأمير مانصه:إن منعها نفقة الحال فلها نفقة القيام فإن لم يثبت عسره أنفق أو طلق وإلا طلق عليه. قال محشيه قوله:وإلا طلق أي طلق عليه الحاكم من غير تلوم إلي أن قال: وإن تطوع بالنفقة قريب أوأجنبي فقال ابن القاسم لها أن تفارق لأن الفراق قد وجب لها.وقال ابن عبدالرحمن لا مقال لها لأن سبب الفراق هو عدم النفقة قد انتهي وهو الذي تقضيه المدونة كما قال ابن المناصف۔

(الحيلة الناجزة،الرواية الثالثة والعشرون ص:150،ط: دارالإشاعت)

فتاوی شامی میں ہے:

(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء، وقدر بسبع، وبه يفتى؛ لأنه الغالب‘‘.

(بابالحضانة، ج:3،ص:566،ط:سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

’’نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة‘‘.

(باب النفقات،الفصل الرابع في نفقة الأولاد،ج:1،ص:566،ط:رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

( والأم والجدة ) لأم أو لأب ( أحق بها ) بالصغيرة ( حتى تحيض ) أي تبلغ في ظاهر الرواية.....( وغيرهما أحق بها حتى تشتهي ) وقدر بتسع وبه يفتى.....( وعن محمد أن الحكم فى الأم والجدة كذلك ) وبه يفتى لكثرة الفساد.

(كتاب الطلاق،باب الحضانة.ج5ص267،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده كذا في التتارخانية

(الفتاوى الهندية،كتاب الطلاق،الباب  السادس عشرفى الحضانة،ج:1،ص:594،ط:رشیدية)

فتاوی شامی میں ہے:

وفي المجمع: ولا يخرج الأب بولده قبل الاستغناء وعلله في شرحه بما فيه من الإضرار بالأم بإبطال حقها في الحضانة. 

 (كتاب الطلاق،باب الحضانة.ج :3،ص: 570،ط:سعید)  

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100180

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں