بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاقِ صریح کے بعد نکاح کرنے سے رجوع ہو جاتا ہے، لفظِ حرام میں شوہر کا طلاق کی نیت نہ کرنے کا دعویٰ معتبر نہیں ہے


سوال

میرے شوہر نے مجھے ایک صریح طلاق دی تھی، اس کے بعد ہم نے گواہوں کے سامنے نکاح کیا، پھر وہ سعودیہ گیا، کچھ عرصے بعد اس نے مجھے کہا "اگر میری اجازت کے بغیر گھر سے نکلی تو تم مجھ پر حرام ہو گی "میں گھر سے نکلی پھر ایک ماہ بعد اس نے مجھےپھر کہا : "اگر تم میری اجازت کے بغیر گھر سے نکلی تو اچھا نہیں ہو گا "میں نے کہا: "کیسے اچھا نہیں ہوگا طلاق ہوگی" اس نے کہا" ہاں طلاق ہوگی" پھر میں نکلی ہوں، پھر اس نے مجھے کئی دفعہ یہی  کہا:"اگر تم میری اجازت کے بغیر گھر سے نکلی تو مجھ پر حرام ہوگی" اور میں نکلی ہوں، تو جب میں نے ان سے کہا کہ آپ نےکئی دفعہ مجھے اس طرح بولا ہے، میں یہ مسئلہ حل کروانا چاہتی ہوں، لیکن وہ منکر تھا ،اس نے کہا کہ حرام سے میری نیت طلاق کی نہیں تھی آپ حضرات سے گزارش ہے کہ آپ میرا یہ سوال حل کر دیں۔

تنقیح: طلاق صریح کے بعد عدت میں نکاح کہا یا عدت مکمل ہونے کے بعد ؟

جواب تنقیح: عدت مکمل ہونے کے بعد نکاح کیا تھا۔

جواب

 صورتِ مسئولہ میں ایک طلاقِ صریح کی عدت کےبعد دوبارہ نکاح کرنا درست تھا، اس کے بعد شوہر کے پاس دو طلاقوں کا اختیار باقی تھا،پھر جب شوہر نے یہ کہا کہ "اگر میری اجازت کے بغیر گھر سے نکلی تو تم مجھ پر حرام ہوگی " اور بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکل گئی تو اس پر دوسری طلاقِ بائن واقع ہو گئی ، پھر اس کے ایک ماہ بعد جب شوہر نے کہا کہ اگر تم میری اجازت کے بغیر گھر سے نکلی تو اچھا نہیں ہوگا اور بیوی کے پوچھنے پر کہا کہ "ہاں طلاق ہوگی" اور اس کے باوجود  عدت کے دوران بیوی شوہر  کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلی تو اس سے بیوی پر تیسری طلاق بھی واقع ہو گئی اور بیوی شوہر پر حرمتِ مغلظہ کےساتھ حرام ہوگئی، اب رجوع کی گنجائش نہیں اور دوبارہ نکاح بھی نہیں ہو سکتا، عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک) گزارنے کے بعد مطلقہ دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

اگر عدت گزارنے کے بعد  مطلقہ کسی دوسری جگہ نکاح کر لے اور دوسرے شوہر  صحبت کے بعد طلاق دے دی یا اس کا انتقال ہو جائے تو اس کی عدت گزار کر دوبارہ پہلے شوہر سے نکاح کی اجازت ہوگی۔

شوہر کا یہ کہنا شرعاً معتبر نہیں ہے کہ میں نے حرام سے طلاق کی نیت نہیں  کی تھی، کیوں کہ حرام کا لفظ ہمارے معاشرے میں طلاق کے معنی میں صریح ہے، یعنی شوہر جب بھی اپنی بیوی کو "حرام" کہتا ہے تو اس سے طلاق ہی مراد ہوتی ہے۔

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة."

وفي الرد:

"(قوله ويلحق البائن) كما لو قال لها أنت بائن أو خلعها على مال ثم قال أنت طالق أو هذه طالق بحر عن البزازية، ثم قال: وإذا لحق الصريح البائن كان بائنا لأن البينونة السابقة عليه تمنع الرجعة كما في الخلاصة".

(كتاب الطلاق، ‌‌باب الكنايات، مطلب الصريح يلحق الصريح والبائن، 3/ 306، ط: سعید)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(قال لامرأته: أنت علي حرام) ونحو ذلك كأنت معي في الحرام (إيلاء إن نوى التحريم...(وتطليقة بائنة) إن نوى الطلاق وثلاث إن نواها ويفتى بأنه طلاق بائن (وإن لم ينوه) لغلبة العرف".

وفي الرد:

"(قوله: قال لامرأته: أنت علي حرام إيلاء إن نوى التحريم إلخ) أقول: هكذا عبارة المتون هنا. وعبارتها في كتاب الأيمان: كل حل علي حرام فهو على الطعام والشراب والفتوى على أنه تبين امرأته من غير نية...

(قوله: وإن لم ينوه) هذا في القضاء، وأما في الديانة فلا يقع ما لم ينو، وعدم نية الطلاق صادق بعدم نية شيء أصلا وبنية الظهار، أو الإيلاء، فإنه لا يصدق قضاء كما صرح به الزيلعي، حيث قال: وعن هذا لو نوى غيره لا يصدق قضاء ح.

قلت: الظاهر أنه إذا لم ينو شيئا أصلا يقع ديانة أيضا. قال في البحر: وذكر الإمام ظهير الدين لا نقول لا تشترط النية لكن يجعل ناويا عرفا اهـ وفي الفتح: فصار كما إذا تلفظ بطلاقها لا يصدق في القضاء بل فيما بينه وبين الله تعالى اهـ فهذا ظاهر فيما قلنا فافهم".

(‌‌كتاب الطلاق، باب الإيلاء، مطلب في قوله أنت علي حرام، 3/ 433)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144308100919

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں