میری 2011 میں شادی ہوئی، ڈیڑھ سال بعد میں نے ان الفاظ سے ایک طلاق دی : ”میں تمہیں طلاق دیتا ہوں “، اس کے بعد میری بیوی ایک سال کے لیے اپنے والدین کے گھر چلی گئی، پھر دوبارہ ہمارے یہاں آئی، تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ گزارا، اس کے بعد پھر اپنے والدین کے یہاں چلی گئی اور تقریبا 4 سال بعد واپس آئی، پھر ہم ساتھ رہنا شروع ہوگئے۔
طلاق کا مذکورہ جملہ کہنے کے بعد میری اپنی بیوی سے کوئی بات، رابطہ اور ملاقات نہیں ہوئی، جب پہلی مرتبہ جب ایک سال بعد ہمارے یہاں آئی تو (بغیر نکاح کے) ہم ساتھ رہنا شروع ہوگئے، ہم نے تعلقات بھی قائم کیے جس کے نتیجہ میں اولاد بھی ہوئی۔
سوال یہ ہے کہ طلاق ہوئی ہے یا نہیں ؟
اگر ہوگئی ہے تو اب ہم دوبارہ ایک ساتھ رہ سکتے ہیں ؟
صورتِ مسئولہ میں جب آپ نے ایک مرتبہ اپنی بیوی سے یہ جملہ کہا کہ ”میں نے تمہیں طلاق دی“، اس جملہ سے آپ کی بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی تھی، جس کے بعد دورانِ عدت (مکمل تین ماہ واریاں اگر حمل نہ ہو اور حمل کی صورت میں بچہ کی پیدائش تک) آپ کو رجوع کرنے کا اختیار تھا،لیکن اگر اس مدت میں آپ نے قولی یا فعلی رجوع نہیں کیا جیسا کہ سوال میں درج ہے، تو عدت کے گزرنے سے نکاح ختم ہوچکا تھا،دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن چکے تھےاور دونوں کا ساتھ رہنا جائز نہیں تھا۔ البتہ عدت کے گزرنے کے بعد آپ کو نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں تجدید نکاح کی اجازت تھی۔طلاق کے ایک سال کے بعد دونوں کا بغیر نکاح کیے ملنا اور تعلقات قائم کرنا ،ناجائز تھا، جس پر دونوں کو سچے دل سے ندامت کے ساتھ توبہ و استغفار کرنالازم ہے، البتہ اس تعلق سے پیدا ہونے والے بچہ کا نسب سائل سے ثابت ہوگا۔
اب دوبارہ ساتھ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ گواہوں کے رُوبرو نئے مہر کے ساتھ نکاح کی تجدید کی جائے، نیز تجدیدِ نکاح کے بعد آئندہ کے لیے آپ کو صرف دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔
مبسوط سرخسی میں ہے:
"(قال)، وإذا طلقها واحدة في الطهر أو في الحيض أو بعد الجماع فهو يملك الرجعة مادام في العدة لأن النبي صلى الله عليه وسلم «طلق سودة - رضي الله تعالى عنها - بقوله اعتدي ثم راجعها» «وطلق حفصة رضي الله عنها ثم راجعها بالوطء» ويستوي إن طالت مدة العدة أو قصرت لأن النكاح بينهما باق ما بقيت العدة وقد روي أن علقمة رضي الله عنه طلق امرأته فارتفع حيضها سبعة عشر شهرا ثم ماتت فورثه ابن مسعود رضي الله عنه منها وقال إن الله تعالى حبس ميراثها عليك فإذا انقضت العدة قبل الرجعة فقد بطل حق الرجعة وبانت المرأة منه، وهو خاطب من الخطاب يتزوجها برضاها إن اتفقا على ذلك."
(كتاب الطلاق، باب الرجعة، ج:6، ص:19، دار المعرفة)
و فیه أیضاً:
"ولو تزوجها قبل التزوج أو قبل إصابة الزوج الثاني كانت عنده بما بقي من التطليقات".
(کتاب الطلاق، ج:6، ص: 95، ط: دارالمعرفة)
"مطلب في ثبوت النسب من المطلقة. وفي البحر: واعلم أن شرط ثبوت النسب فيما ذكر من ولد المطلقة الرجعية والبائنة مقيد بما سيأتي من الشهادة بالولادة أو اعتراف من الزوج بالحبل، أو حبل ظاهر بحر.۔۔. (قوله: لأنه التزمه) أي وله وجه بأن وطئها بشبهة في العدة هداية وغيرها. (قوله: وهي شبهة عقد أيضا) أي كما أنها شبهة فعل، وأشار به إلى الجواب عن اعتراض الزيلعي بأن المبتوتة بالثلاث إذا وطئها الزوج بشبهة كانت شبهة في الفعل، وقد نصوا على أن شبهة الفعل لا يثبت فيها النسب وإن ادعاه. وأجاب في البحر بأن وطء المطلقة بالثلاث، أو على مال لم تتمحض للفعل بل هي شبهة عقد أيضا فلا تناقض أي لأن ثبوت النسب لوجود شبهة العقد، على أنه صرح ابن مالك في شرح المجمع بأن من وطئ امرأة زفت إليه وقيل له إنها امرأتك فهي شبهة في الفعل وأن النسب يثبت إذا ادعاه، فعلم أنه ليس كل شبهة في الفعل تمنع دعوى النسب."
(کتاب الطلاق، باب العدة، فصل في ثبوت النسب، ج:3، ص:541، ط: دار الفكر)
و فیه أیضاً:
"(قوله: أو شبهته) عطف على " زوال " لا على " النكاح " لأنه لو عطف عليه لاقتضى أنها لا تجب إلا عند زوال الشبهة وليس كذلك، كذا في البحر، ومراده الرد على الفتح حيث صرح بعطفه على النكاح.
قلت: أي لأن الشبهة التي هي صفة الوطء السابق لا تزول عنه، إذ لو زالت لوجب به الحد، نعم إذا أريد زوال منشئها صح عطف " أو شبهته " على النكاح لما سيأتي من أن مبدأ العدة في النكاح الفاسد بعد التفريق من القاضي بينهما، أو المتاركة، وبذلك يزول منشؤها الذي هو النكاح الفاسد، وفي الوطء بشبهة عند انتهاء الوطء واتضاح الحال فافهم."
(کتاب الطلاق، باب العدة، فصل في ثبوت النسب، ج:3، ص:503، ط: دار الفكر)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144604102111
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن